وفاقی وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ 9 برسوں میں پاکستان کا سرکاری قرضہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، جس میں 300 فیصد سے زائد یعنی 60,800 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جون 2016 میں پاکستان کا مجموعی سرکاری قرضہ 19,700 ارب روپے تھا، جو جون 2025 تک بڑھ کر 80,500 ارب روپے کی تاریخی سطح پر پہنچ گیا۔ اس میں سے 54,500 ارب روپے مقامی قرضہ جبکہ 26,000 ارب روپے غیر ملکی قرضہ ہے۔
جون 2017 تک قرضہ بڑھ کر 21,400 ارب روپے ہوا۔
جون 2018 میں یہ قرضہ 24,900 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
جون 2019 میں قرضے کا حجم 32,700 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔
جون 2020 میں یہ بڑھ کر 36,400 ارب روپے ہوگیا۔
جون 2021 میں قرضہ 39,900 ارب روپے تک پہنچا۔
جون 2022 میں قرضے کا حجم 49,200 ارب روپے ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ 3 سال (جون 2022 سے جون 2025) کے دوران قرضوں میں 31,200 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
گزشتہ 9 برسوں کے دوران مجموعی قرضوں میں غیر معمولی تیزی دیکھی گئی، جو ملک کی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے شدید تشویش کا باعث ہے۔
وزارتِ خزانہ کی یہ رپورٹ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی مالی پالیسیوں پر بھی سوالیہ نشان چھوڑتی ہے، اور ماہرین معاشیات کے مطابق قرضوں کا یہ بوجھ نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی چیلنج بن سکتا ہے۔
9 سال میں سرکاری قرضے میں 300 فیصد سے زائد اضافہ

