امریکا نے چین کے ساتھ کسی ممکنہ تنازع کی صورت میں اسلحے کی کمی سے بچنے کے لیے اپنے دفاعی شعبے کو متحرک کر دیا ہے۔ پینٹاگون نے میزائل اور اہم ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اگلے 2 سے 4 گنا تک پیداوار میں اضافہ کریں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزارت دفاع ملک میں ہتھیاروں کے محدود ذخائر پر شدید تشویش میں مبتلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی ادارے تیز ترین شیڈول کے تحت اسلحے کی تیاری بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہے ہیں۔
اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے پینٹاگون اور بڑی میزائل ساز کمپنیوں کے درمیان کئی **اعلیٰ سطحی اجلاس** ہو چکے ہیں۔ ان اجلاسوں کی نگرانی **ڈپٹی ڈیفنس سیکریٹری اسٹیو فینبرگ** خود کر رہے ہیں اور وہ ہر ہفتے کمپنیوں کے سربراہان سے رابطے میں رہتے ہیں۔
جون 2025 میں ہونے والے ایک اہم اجلاس میں **امریکی وزیر دفاع، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین، لاک ہیڈ مارٹن، ریتھیون، اینڈریل انڈسٹریز** سمیت کئی اہم کمپنیوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ ان کمپنیوں نے اضافی افرادی قوت، فیکٹریوں کی توسیع اور ضروری پرزہ جات کا ذخیرہ تیار کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
میزائل ترجیحات اور پیداوار میں تیزی
پینٹاگون نے چین کے ساتھ ممکنہ کشیدگی کے پیش نظر **12 اہم ہتھیاروں** کو ترجیحی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ان میںپیٹریاٹ انٹرسیپٹر میزائل، لانگ رینج اینٹی شپ میزائل ، اسٹینڈرڈ میزائل 6 ، پریسیژن اسٹرائیک میزائل، جوائنٹ ایئر-سرفیس اسٹینڈ آف میزائل (JASSM) شامل ہیں
خاص طور پر پیٹریاٹ میزائل سسٹم کو ترجیح دی جا رہی ہے، کیونکہ دنیا بھر میں اس کی مانگ زیادہ ہے اور **لاک ہیڈ مارٹن** موجودہ طلب پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اربوں ڈالر کا معاہدہ
ستمبر 2025 میں امریکی فوج نے لاک ہیڈ مارٹن کو تقریباً 10 ارب ڈالر کا بڑا معاہدہ دیا، جس کے تحت وہ 2024 سے 2026 کے درمیان 2,000 پی اے سی-3 میزائل تیار کرے گی۔ پینٹاگون چاہتا ہے کہ اس کے بعد ہر سال اتنی ہی پیداوار برقرار رکھی جائے، جو موجودہ رفتار سے تقریباً 4 گنا زیادہ ہو گی۔
مستقبل کی تیاری
امریکی محکمہ دفاع نے کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ اگلے 6، 18 اور 24 ماہ کے لیے ایسے منصوبے پیش کریں جن میں پیداوار 2.5 گنا یا اس سے زیادہ بڑھائی جا سکے، تاکہ مستقبل میں کسی بھی ہنگامی صورتحال یا تنازع کے دوران اسلحے کی قلت نہ ہو۔
یہ اقدامات اس بات کا اشارہ ہیں کہ امریکا اب مستقبل کے ممکنہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے دفاعی نظام کو تیزی سے اپ گریڈ کر رہا ہے۔