غزہ کی جانب امداد لے جانے والے قافلے پر اسرائیلی سائبر حملہ، مواصلاتی نظام متاثر

Calender Icon بدھ 1 اکتوبر 2025

   فلسطینی عوام کے لیے امداد لے جانے والے بین الاقوامی بحری قافلے “گلوبل سمود فلوٹیلا” نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی جنگی جہازوں نے نہ صرف ان کی کشتیوں کو روکنے کی کوشش کی بلکہ ان کے مواصلاتی اور نیویگیشن نظام پر سائبر حملہ بھی کیا، جس سے کشتیوں کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
 خطرناک محاصرے کا دعویٰ
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق، قافلے میں شامل کشتیوں Alma اور Sirius کو غزہ کے قریب سمندری حدود میں داخل ہونے پر دو اسرائیلی جنگی جہازوں نے گھیرے میں لے لیا۔ قافلے کے ایک شریک، برازیل سے تعلق رکھنے والے کارکن تھییاگو ایویلا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسی دوران ان کے تمام نیویگیشن اور کمیونیکیشن سسٹمز اچانک بند ہو گئے، جسے منتظمین نے ایک “منظم سائبر حملہ” قرار دیا۔
قافلہ اب بھی مشن پر قائم
رکاوٹوں کے باوجود، منتظمین نے واضح کیا ہے کہ قافلہ اپنا مشن جاری رکھے گا۔ امدادی قافلے میں 40 سے زائد سول کشتیوں پر تقریباً 500 افراد سوار ہیں جن میں اقوام متحدہ کے نمائندے، ارکانِ پارلیمنٹ، وکلاء، انسانی حقوق کے علمبردار اور معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ شامل ہیں۔
قافلے کا مقصد خوراک اور ادویات غزہ کے متاثرہ شہریوں تک پہنچانا ہے۔ اس وقت قافلہ غزہ کے ساحل سے تقریباً 120 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے، اور منتظمین کا کہنا ہے کہ اگر مزید رکاوٹ نہ آئی تو وہ جمعرات کی صبح غزہ پہنچ جائیں گے۔
 ڈرون حملوں کا بھی الزام
قافلے نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دنوں ان کی کشتیوں پر ڈرون حملے بھی کیے گئے، جن میں اسٹن گرینیڈز اور جلن پیدا کرنے والا پاؤڈر پھینکا گیا۔ ان حملوں میں اگرچہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا، لیکن کشتیوں کو نقصان ضرور ہوا۔
منتظمین کے مطابق اسرائیلی اقدامات نے “40 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے نہتے کارکنان کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے”۔ ان کا مؤقف ہے کہ “ہم پرامن اور انسانی بنیادوں پر اپنا مشن مکمل کریں گے، کسی دھمکی یا رکاوٹ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”
 بین الاقوامی ردعمل
اقوام متحدہ میں فلسطینی حقوق سے متعلق اعلیٰ ماہر فرانچیسکا البانیزے نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے قافلے کو زبردستی روکا تو یہ “بین الاقوامی اور سمندری قوانین کی کھلی خلاف ورزی” ہوگی، کیونکہ اسرائیل کے پاس غزہ کی سمندری حدود پر کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔

دوسری جانب، اسرائیلی حکومت نے اس واقعے پر فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، البتہ ماضی میں وہ غزہ جانے والی کشتیوں کو روکنے کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنے کے حق میں رہی ہے، یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ وہ “حماس سے جنگ کی حالت” میں ہے اور غزہ میں اسلحے کی فراہمی روکنا اس کی سیکیورٹی پالیسی کا حصہ ہے۔
یادگار واقعہ: 2010 کی فلوٹیلا پر حملہ
یہ واقعہ ایک بار پھر 2010 کی یاد تازہ کر دیتا ہے، جب اسرائیلی فورسز نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والی ایک اور فلوٹیلا پر حملہ کیا تھا، جس میں 9 کارکن جاں بحق ہو گئے تھے، اور عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
 یورپی ممالک کا محتاط تعاون
اس بار فلوٹیلا کو اٹلی اور اسپین کی بحری معاونت بھی حاصل ہے، جنہوں نے اپنے بحری جہاز علاقے میں تعینات کیے ہیں — لیکن واضح کیا ہے کہ وہ کسی فوجی کارروائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اٹلی اور یونان نے مشترکہ بیان میں اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قافلے کو پرامن طور پر آگے بڑھنے دے اور سوار کارکنان کو نقصان نہ پہنچائے۔
دریں اثنا، ترکی کے ڈرونز بھی قافلے کی فضائی نگرانی کر رہے ہیں، جبکہ اٹلی اور اسپین کا کہنا ہے کہ وہ قافلے کی حمایت جاری رکھیں گے جب تک وہ غزہ کے ساحل سے 150 ناٹیکل مائل کے اندر نہ آ جائے۔
 کیتھولک چرچ کے ذریعے امداد کی تجویز مسترد
اٹلی اور اسپین نے قافلے کو مشورہ دیا تھا کہ امداد کیتھولک چرچ کے توسط سے غزہ بھجوائی جائے، لیکن منتظمین نے یہ تجویز مسترد کر دی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ براہِ راست انسانی رابطے اور خود انحصاری کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔