سندھ کابینہ نے کچے کے علاقوں میں جرائم پر قابو پانے اور امن بحال کرنے کے لیے ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کی پالیسی منظور کرلی، جس کے تحت ہتھیار ڈالنے والے مجرموں کو بحالی، روزگار اور تحفظ کی سہولت دی جائے گی۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ کابینہ نے ایک نئی پالیسی منظور کی ہے، جس کے تحت کچے کے علاقوں میں موجود ڈاکو اگر ہتھیار ڈال دیں گے تو انہیں اور ان کے خاندان کو حفاظت، روزگار اور بحالی کی سہولت دی جائے گی۔
سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی زیرِ صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کی پالیسی پر بریفنگ دی گئی۔
حکام نے بتایا کہ سیکیورٹی آپریشنز کی کامیابی اور مقامی برادریوں سے مذاکرات کے بعد متعدد ڈاکوؤں نے رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کا عمل شفاف، انسانی ہمدردی کے مطابق اور قانون کے دائرے میں ہو، ساتھ ہی ریاست کی عملداری برقرار رہے اور کچے کے علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کو فروغ ملے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق پالیسی کی نمایاں خصوصیات میں جبری غیر مسلح ہونا، خاندانوں کی حفاظت، بحالی و روزگار کی فراہمی اور تعلیم، صحت و فنی تربیت تک رسائی شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت کچے کے علاقوں میں اسکولوں، صحت مراکز، جانوروں کے علاج اور ترقیاتی منصوبوں کو بھی بحال کرے گی تاکہ امن و استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق جو ڈاکو ہتھیار ڈالنے پر راضی ہیں، انہیں مکمل معافی نہیں ملے گی بلکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ داخلہ کو ہدایت دی کہ وہ عوامی آگاہی مہم شروع کرے تاکہ ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کو امن اور معاشرتی بحالی کا راستہ قرار دیا جا سکے۔
انہوں نے مزید ہدایت دی کہ پالیسی پر شفاف عملدرآمد اور مسلسل نگرانی کے لیے علیحدہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔
یہ پالیسی اس وقت تیار کی گئی جب 200 سے زائد ڈاکوؤں نے لاڑکانہ پولیس سے رابطہ کر کے ہتھیار ڈالنے کی آمادگی ظاہر کی۔
سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے ڈان کو بتایا کہ جو بھی ڈاکو یا گروہ پرامن طور پر ہتھیار ڈالے گا، وہ قانون کے تحت مقررہ ضوابط کے مطابق کارروائی کا سامنا کرے گا۔
تعلیمی بورڈز کا بل دوبارہ منظور
کابینہ نے سندھ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (سیکنڈ ترمیمی) بل 2025 ایک بار پھر منظور کر لیا، بغیر اس اعتراض کو دور کیے جو گورنر کامران ٹیسوری نے اٹھایا تھا۔
گورنر نے اس ترمیم پر اعتراض کیا تھا، جس کے تحت گریڈ 19 یا 20 کے سرکاری افسران کو کسی بھی تعلیمی بورڈ کا چیئرمین بنایا جا سکتا ہے، جب کہ پہلے یہ عہدہ گریڈ 20 یا 21 کے افسران کے لیے مخصوص تھا۔
تاہم، کابینہ نے ترمیم دوبارہ منظور کر کے بل سندھ اسمبلی کو قانون سازی کے لیے بھجوا دیا۔
یاد رہے کہ 8 اگست کو سندھ اسمبلی نے یہ بل منظور کیا تھا مگر گورنر نے دوسری بار بھی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔
پنشن اصلاحات کے نوٹیفکیشنز معطل
ترجمان کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر اور سندھ ایمپلائز الائنس (ایس ای اے) کی درخواست پر کابینہ نے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری پنشن اصلاحات سے متعلق تین نوٹیفکیشنز کو مؤخر کرنے کی منظوری دے دی۔
کابینہ نے چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت دی کہ وہ متعلقہ محکموں کے افسران اور ایس ای اے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں جو سرکاری ملازمین کے مطالبات کا جائزہ لے۔
فلاحی فنڈ کے حوالے سے کابینہ نے اصولی طور پر فیصلہ کیا کہ اس کی ادائیگی کا طریقہ کار جی پی فنڈ کی ریٹائرمنٹ ادائیگی کے مطابق بنایا جائے، اس حوالے سے مالی اثرات کے ساتھ تجویز اگلے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
کابینہ نے فنانس سیکریٹری کو یہ بھی ہدایت دی کہ گروپ انشورنس سے متعلق ملازمین کی درخواست پر غور کر کے آئندہ اجلاس میں تجاویز پیش کریں۔
گندم ریلیز پالیسی کی منظوری
کابینہ نے آٹا ملوں اور چکیوں کو 12 لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن گندم 9 ہزار 500 روپے فی 100 کلوگرام کے حساب سے فراہم کرنے کی منظوری دے دی۔
پالیسی کا مقصد گندم کے آٹے کی قیمتوں کو مستحکم کرنا، عوام کو ریلیف دینا اور گندم کی فروخت سے حاصل رقم کے ذریعے بینک قرضوں کی ادائیگی اور واجبات میں کمی لانا ہے۔
فوڈ ڈیپارٹمنٹ رواں ماہ سے مرحلہ وار گندم کی فراہمی شروع کرے گا۔
شہری جائیداد ٹیکس نظام میں اصلاحات کی تجویز
کابینہ نے شہری غیر منقولہ جائیداد ٹیکس (یو آئی پی ٹی) کے نظام کو سالانہ کرایہ ویلیو (اے آر وی) سے تبدیل کر کے کیپیٹل ویلیو (سی وی) پر لانے کی تجویز پر بھی غور کیا تاکہ اسے آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ قومی ٹیکس ہم آہنگی پالیسی سے ہم آہنگ کیا جا سکے، جیسا کہ پنجاب میں کیا گیا ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ موجودہ اے آر وی نظام 2001 سے غیر متبدل ہے اور مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کی عکاسی نہیں کرتا، جب کہ خالی پلاٹس اس میں شامل نہیں ہیں۔
نیا سی وی نظام جو پہلے ہی اسٹامپ ڈیوٹی اور جائیداد منتقلی ٹیکس میں استعمال ہو رہا ہے، زیادہ منصفانہ قیمتوں، وسیع تر ٹیکس نیٹ اور مقامی حکومتوں کے لیے بہتر محصولات کو یقینی بنائے گا۔
مزید بتایا گیا کہ کراچی پراپرٹی سروے کے بعد یہ نظام نافذ کیا جائے گا، جس سے جنوری 2026 تک ٹیکس نیٹ میں 20 لاکھ سے زائد نئی جائیدادیں شامل ہو جائیں گی۔