شِرم الشیخ/غزہ: مصر کے ریڈ سی ریزورٹ شِرم الشیخ میں جاری بالواسطہ مذاکرات کے دوران فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنے اہم مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ یہ مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، جس میں یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی انخلاء، اور غزہ کی بحالی شامل ہے۔ حماس کے سینئر عہدیدار فوزی برہوم نے ایک ٹیلی ویژن بیان میں کہا کہ “مستقل اور جامع جنگ بندی ہمارا پہلا مطالبہ ہے”، جبکہ اسرائیلی فورسز کا غزہ سے مکمل انخلاء دوسرا اہم مطالبہ ہے۔
حماس کے ترجمان نے مزید کہا کہ انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی تیسرا مطالبہ ہے، جو غزہ کی تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے اور لاکھوں بے گھر افراد کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ چوتھا مطالبہ بے گھر فلسطینیوں کی اپنے گھروں کو محفوظ واپسی ہے، جبکہ پانچواں مطالبہ فلسطینی قومی تکنیکی اداروں کی نگرانی میں غزہ کی مکمل تعمیر نو کا فوری آغاز ہے۔ حماس کا چھٹا مطالبہ قیدیوں کا منصفانہ تبادلہ اور معاہدہ ہے، جس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو یرغمالیوں کی آزادی سے جوڑا جائے گا۔
یہ مطالبات غزہ کی دو سالہ جنگ کے بعد سامنے آئے، جہاں حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کو “تاریخی جواب” قرار دیا۔ فوزی برہوم نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسا کہ پچھلے مراحل میں ہوا۔ حماس کا کہنا ہے کہ ان کا وفد تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ غزہ کے عوام کی امنگوں پر پورا اترنے والا معاہدہ طے ہو سکے۔
مذاکرات میں حماس کا وفد خلیل الحیہ کی قیادت میں شریک ہے، جبکہ اسرائیلی وفد روں ڈرمر کی سربراہی میں مصر پہنچا۔ مصر اور قطر ثالثی کر رہے ہیں، جبکہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر بھی موجود ہیں۔ ٹرمپ نے مذاکرات کاروں کو “تیز رفتاری” کی ہدایت دی ہے اور حماس کو خبردار کیا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو “مکمل خاتمے” کا آپشن زیر غور ہے۔ تاہم، حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کے کچھ حصوں پر مثبت ردعمل دیا ہے، جیسے عبوری فلسطینی انتظامیہ کو غزہ کا کنٹرول سونپنا، لیکن ہتھیار ڈالنے اور غزہ کی حکومت سے حماس کو خارج کرنے جیسے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔