اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو آج اپنی حکومت کے سامنے وہ جنگ بندی معاہدہ پیش کرنے والے ہیں، جس پر اسرائیل اور حماس کے درمیان ابتدائی طور پر دستخط ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم آض اس معاہدے کو حکومت کے سامنے پیش کریں گے، لیکن اس معاہدے سے ان کی حکومت ممکنہ خطرے میں پڑ گئی ہے۔
معاہدے کے مطابق اسرائیلی افواج طے شدہ حد تک غزہ سے انخلا کریں گی اور حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو مرحلہ وار رہا کرے گی۔ قطر، مصر اور ترکیہ نے اس تاریخی پیشرفت میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
معاہدے پر دستخط کے بعد اسرائیلی حکومت آج ایک اہم اجلاس بلانے جا رہی ہے جہاں نیتن یاہو جنگ بندی معاہدہ باضابطہ طور پر پیش کریں گے۔ اس معاہدے پر حکومت کی ووٹنگ متوقع ہے، جس کے بعد اسرائیلی افواج ان سرحدی لکیروں سے پیچھے پٹ جانئے گی جو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے نقشے میں واضح کی تھیں۔
الجزیرہ کے مطابق ووٹنگ کے 72 گھنٹے بعد حماس قیدیوں اور یرغمالیوں کی رہائی کا پہلا مرحلہ شروع کرے گی۔ امریکی حکام کے مطابق یہ عمل ممکنہ طور پر پیر کے روز شروع ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں اپنے بیانات میں واضح طور پر کہا ہے کہ ’اسرائیل کو عالمی سطح پر نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی، ثقافتی اور سفارتی محاذوں پر بھی شدید تنہائی کا سامنا ہے‘۔
اُن کے مطابق اسرائیل کے لیے یہ معاہدہ ایک موقع ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرے۔
تاہم اسرائیل کے اندر سیاسی صورتحال اب بھی غیر یقینی ہے۔ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کے کئی اتحادی رہنما اس معاہدے کی شرائط پر ناخوش ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر نیتن یاہو معاہدہ پیش نہ کرتے تو بین الاقوامی دباؤ اور سفارتی تنہائی ان کی حکومت کے لیے مزید خطرناک ثابت ہو سکتی تھی، اس لیے اب ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا، یہ معاہدہ ہر حال میں منظور کروانا ہوگا، چاہے حکومت کے اتحاد میں دراڑ ہی کیوں نہ پڑ جائے۔
عالمی اور اندرونی دباؤ میں گھرے اسرائیلی وزیراعظم پر کڑی تنقید
غزہ امن معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران متعدد بیانات جاری کیے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’یہ سب اسرائیلی فوج کے دباؤ، مسلسل عسکری کارروائیوں اور جنگ کے آغاز میں طے کردہ مقاصد کے نتیجے میں ممکن ہوا۔‘
نیتن یاہو کے مطابق اسرائیل نے میدانِ جنگ میں جو کامیابیاں حاصل کیں، انہی کی بنیاد پر یہ معاہدہ ممکن ہوا۔
تاہم زمینی حقائق اس حکومتی بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔ غزہ سے اب تک جن اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوئی، ان میں سے اکثریت براہِ راست مذاکرات، سفارتی رابطوں اور جنگ بندی معاہدوں کے ذریعے رہا ہوئی ہے نہ کہ کسی کامیاب فوجی کارروائی کے نتیجے میں۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کے ’’فوجی دباؤ‘‘ کا دعویٰ محض سیاسی فائدے کے لیے ہے تاکہ نیتن یاہو اپنی کمزور ساکھ کو مضبوط دکھا سکیں۔
الجزیرہ کے مطابق، امریکی حکام اور ثالثی عمل سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ بیشتر رہائیاں واشنگٹن، دوحہ اور قاہرہ کی سفارتی کوششوں سے ممکن ہوئیں، جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے براہِ راست کردار ادا کیا۔
دوسری طرف، اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کو شدید عوامی غم و غصے کا سامنا ہے۔
وہ شہری جن کے عزیز گزشتہ دو برس سے یرغمال بنے ہوئے تھے، مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ ہر ہفتے اسرائیل کے مختلف شہروں میں ان قیدیوں کے اہل خانہ مظاہرے کرتے ہیں اور وزیراعظم پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں کے باعث رہائی کے امکانات کو بارہا سبوتاژ کیا۔
سوشل میڈیا پر بھی یہی تاثر نمایاں ہے۔ یرغمالیوں کے اہل خانہ اور ان کی حمایت کرنے والے گروہوں نے حالیہ دنوں میں جو بیانات دیے ہیں، ان میں امریکی صدر ٹرمپ اور ایلچی اسٹیو وٹکوف کا شکریہ تو ادا کیا گیا ہے مگر نیتن یاہو کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔
عوامی رائے عامہ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے کئی مواقع ضائع کیے، خاص طور پر جولائی 2024 میں، جب ثالثوں کے مطابق ایک مکمل جنگ بندی معاہدہ طے پانے کے قریب تھا، مگر نیتن یاہو نے آخری لمحات میں نئی شرائط شامل کر کے سارا عمل سبوتاژ کر دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نیتن یاہو اب بین الاقوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ اندرونی سیاسی و عوامی ردعمل سے بھی دوچار ہیں۔ ان کے اتحادی بھی اس بات سے خائف ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کی حکومت کسی بڑے سیاسی طوفان کا سامنا کر سکتی ہے۔ غزہ امن معاہدے کی منظوری کے بعد اگرچہ اسرائیل وقتی طور پر عالمی تنہائی سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، مگر اندرونِ ملک نیتن یاہو کی قیادت پر اعتماد تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔