ایمازون نے پاکستان میں اپنے سیٹلائٹ انٹرنیٹ منصوبے پروجیکٹ کائپر کے آغاز کی تیاری شروع کر دی ہے، جس سے ملک میں تیز رفتار اور کم لاگت انٹرنیٹ کی نئی راہیں کھلنے کی توقع ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسٹارلنک، ایک یورپی اور ایک چینی کمپنی کے بعد اب ایمازون نے بھی اپنے سیٹلائٹ انٹرنیٹ منصوبے پروجیکٹ کائپر کے ذریعے پاکستان میں سروسز شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کام شزا فاطمہ خواجہ سے ملاقات کے دوران ایمازون کے وفد نے 2026 کے اختتام تک پاکستان میں پروجیکٹ کائپر لانچ کرنے کا منصوبہ پیش کیا، وفد کی قیادت مصطفیٰ موسیٰ کر رہے تھے جو یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں پروجیکٹ کائپر کے لائسنسنگ اور ریگولیٹری امور کے سربراہ ہیں، ان کے ہمراہ جیف کیٹزمین اور ہشام الشعیر بھی موجود تھے۔
وزیرِ آئی ٹی نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیشرفت اس بات کی علامت ہے کہ عالمی ٹیکنالوجی کمپنیاں پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ کائپر کی آمد سے ملک میں سستے اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی نئی راہیں کھلیں گی، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں روایتی انٹرنیٹ کی سہولیات محدود ہیں۔
پروجیکٹ کائپر دراصل ایمیزون کا ’لو ارتھ آربٹ‘ (ایل ای او) سیٹلائٹ نیٹ ورک ہے، جس کے تحت 3 ہزار 236 سیٹلائٹس خلا میں بھیجے جائیں گے تاکہ کم لاگت والے صارف ٹرمینلز کے ذریعے 400 میگا بٹس فی سیکنڈ تک کی براڈ بینڈ اسپیڈ فراہم کی جا سکے۔
وفد نے بتایا کہ ایمازون پاکستان میں زمینی ڈھانچہ (گراؤنڈ انفراسٹرکچر) قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں گیٹ ویز اور ’پوائنٹس آف پریزنس‘ (پی او پیز) شامل ہوں گے تاکہ مستحکم کنیکٹیویٹی اور مقامی نیٹ ورکس کے ساتھ ہموار انضمام کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایمازون کے منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے شزا فاطمہ نے کہا کہ یہ شراکت حکومت کے وژن ’ڈیجیٹل نیشن پاکستان‘ سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ صرف تیز انٹرنیٹ کے بارے میں نہیں بلکہ مواقع پیدا کرنے کے بارے میں ہے، پروجیکٹ کائپر کے ذریعے ہم ڈیجیٹل شمولیت کی طرف ایک عملی قدم اٹھا رہے ہیں تاکہ ہر شہری، چاہے وہ کہیں بھی رہتا ہو، جڑ سکے، سیکھ سکے اور ترقی کر سکے۔
وزارتِ آئی ٹی و ٹیلی کام نے کہا کہ اس قسم کا تعاون پاکستان کے آئی ٹی شعبے کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا، اختراعات اور ای کامرس کو فروغ دے گا اور پاکستان کی پوزیشن کو عالمی ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں مضبوط بنائے گا۔
پاکستان کی سیٹلائٹ براڈ بینڈ پالیسی پاکستان سیٹلائٹ سروسز ریگولیٹری پالیسی (پی اے ایس آر پی) کے تحت چلتی ہے، جو غیر ملکی آپریٹرز کے لیے لینڈنگ رائٹس اور اسپیکٹرم تک رسائی کے ضوابط طے کرتی ہے، متعدد بین الاقوامی کمپنیاں پہلے ہی اس ضمن میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہیں۔
اسپیس ایکس کی اسٹارلنک نے ابتدائی تکنیکی دستاویزات جمع کرا دی ہیں، جب کہ فرانسیسی گروپ یوٹل سیٹ کی ذیلی کمپنی ون ویب نے گیٹ وے ٹیسٹنگ اور تجارتی تعاون کے لیے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔
چینی سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی ایس ایس ایس ٹی کی درخواست فی الحال ابتدائی مراحل میں ہے۔
ایمازون کا پروجیکٹ کائپر اب پاکستان سے باضابطہ رابطہ کرنے والا چوتھا بڑا عالمی ایل ای او سیٹلائٹ آپریٹر بن گیا ہے۔
پی اے ایس آر پی کے ضابطہ جاتی ڈھانچے کے تحت سیٹلائٹ آپریٹرز کو متعدد منظوریوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں لینڈنگ رائٹس، گیٹ وے لائسنسنگ، اسپیکٹرم الاٹمنٹ اور سیکیورٹی کلیئرنس شامل ہیں۔
یہ منظوری مختلف اداروں مثلاً سپارکو، فریکوئنسی الاٹمنٹ بورڈ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور وزارتِ داخلہ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔