لاہور(ویب ڈیسک)لاہور کے ایکسپو سینٹر میں فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کانفرنس شروع ہوگئی، قومی ترانہ بجایا گیا، جس کے بعد تلاوت کلام پاک سے کانفرنس کا آغاز ہوگیا۔
فضائی آلودگی انسانی مسئلہ، اسے درست کرنا ہماری ذمہ داری ہے، مصدق ملک
وفاقی وزیرِ برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب سے خطاب کر رہے ہیں، انہوں نے معذرت کی کہ وہ کچھ خاص حالات کی وجہ سے لاہور نہیں پہنچ سکے۔
وزیرِ موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے فضائی آلودگی کو ایک انسانی ساختہ مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اسے درست کرنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ ماضی میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، تاہم اب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مختلف قوانین اور پالیسیوں کا حوالہ دینے سے گریز کیا، لیکن کہا کہ وفاقی حکومت اور پنجاب موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہترین کام کر رہے ہیں۔
مصدق ملک نے کہا کہ فضائی آلودگی کے باعث بچوں کے پھیپھڑوں کی کارکردگی کا تقریباً 40 فیصد حصہ متاثر ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف اسموگ نہیں ہے، اسے موت کے زاویے سے بھی دیکھیں، اور یہ صرف موت نہیں، اسے محبت کے زاویے سے بھی دیکھیں، جب آپ ان چہروں کو دیکھیں گے جو اس دھند کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، شاید تب ہم ان مسائل کو زیادہ تیزی سے حل کر سکیں۔
فضائی آلودگی اور اوسط عمر کے درمیان تعلق کا ذکر
وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ آلودگی اور یہ تمام ماحولیاتی خطرات، ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
انہوں نے یاد کیا کہ ان کے والد اپنے آخری ایام میں کوما میں تھے اور وہ ان کی زندگی کے لیے ’بس ایک دن اور‘ کی دعا کرتے رہے، زندگی کی قدر پر زور دیتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ لاہور کے تمام شہریوں کی زندگی کے 8 سے 8 سال اسموگ کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم شاید اسموگ یا فضائی آلودگی کے باعث پیدا ہونے والے غم اور اموات کو اپنی زندگی سے وابستہ نہیں کرتے، حالاں کہ تخمینوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ 28 ہزار قبل از وقت اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہیں، اور ایک فرد کی زندگی کے 5 سے 8 سال کم ہو جاتے ہیں۔
ناز آفرین سہگل لاکھانی کا صاف فضا کے عزم پر زور
تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے پاکستان ہیرالڈ پبلیکیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ناز آفرین سہگل لاکھانی نے کہا کہ ’ڈان میڈیا کی جانب سے آپ سب کو ’بریتھ پاکستان: دی ایئر وی بریتھ‘ میں خوش آمدید کہنا میرے لیے اعزاز اور ذمہ داری دونوں ہے، یہ ایک نہایت اہم اجتماع ہے جو ایک انتہائی فوری مسئلے، یعنی فضائی آلودگی، پر مرکوز ہے۔

اس اقدام کے آغاز کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ماحولیاتی تبدیلی پر ایک قومی مکالمہ شروع کرنا تھا، پہلی کانفرنس میں ماہرین نے مل کر ایک ماحولیاتی لحاظ سے مضبوط پاکستان کے لیے چارٹر جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج، ‘دی ایئر وی بریتھ’ اسی تسلسل پر آگے بڑھ رہا ہے، جیسے ہی ہم ایک اور اسموگ سیزن میں داخل ہو رہے ہیں، یہ کانفرنس فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے عملی اور قابلِ عمل اقدامات پر توجہ دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم تعاون کے ایک زندہ اور مربوط نیٹ ورک کو فروغ دینے میں مدد کر رہے ہیں، تاکہ مشترکہ وعدوں کو یقینی بنایا جا سکے، مجھے امید ہے کہ آج کی گفتگو اجتماعی عمل کو اُبھارے گی اور ایک مضبوط پیغام دے گی کہ عوام کی صحت اور پاکستان کا مستقبل صرف پالیسی کے نکات نہیں بلکہ ہماری ترجیحات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئیے ہم سب صاف فضاؤں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند ماحول کے عزم کا اعادہ کریں۔
پہلے سیشن سے مریم اورنگزیب کا خطاب
پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں ریزیڈنٹ اور ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ پہلی نشست سے خطاب کریں گے، اس وقت مریم اورنگزیب خطاب کر رہی ہیں۔
اپنے خطاب کے آغاز میں پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے بہت سے ماہرین، میڈیا کے افراد، پالیسی سازوں اور سول سوسائٹی کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ماحولیاتی لچک اور ماحولیاتی مطابقت کے حوالے سے مشترکہ ذمے داری کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈان میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر نے کہا کہ وہ فروری کی کانفرنس میں شرکت کے وقت تھوڑی شکوک و شبہات میں مبتلا تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگا تھا کہ یہ ایک پائیدار اقدام ثابت ہوگا، اس لیے میں دل سے ناز آفرین، آپ سب اور ڈان گروپ کو مبارکباد دیتی ہوں کہ آپ نے اس اقدام کو برقرار رکھا، کیوں کہ تسلسل ہی ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے کی کلید ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ دیگر میڈیا اداروں کو بھی اس اقدام کا حصہ بنایا جائے، میں وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایک کیس اسٹڈی پیش کرنا چاہتی ہوں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ لاہور، جو پاکستان کا ثقافتی ورثہ اور دل ہے، موسمی اسموگ کے مسئلے سے دوچار ہے، یہ سال بھر جاری رہنے والا مسئلہ ہے، لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں فضائی معیار (اے کیو آئی) کے اعداد و شمار تسلی بخش نہیں تھے، لہٰذا ہم نے اسموگ میں کمی کے لیے اہداف پر کام شروع کیا۔
سینئر صوبائی وزیر نے بتایا کہ جب انہوں نے مارچ میں ایک اجلاس بلایا تو حکومت حیران رہ گئی کہ ہم اس مسئلے پر مارچ میں بات کر رہے ہیں، کیوں کہ فضائی آلودگی کا یہ مسئلہ سال بھر رہتا ہے، ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو کثیرالجہتی نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔
مریم نواز کی قیادت میں اسموگ میں کمی کا منصوبہ
پنجاب کی سینئر وزیر نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں شروع کیے گئے اسموگ میں کمی کے منصوبے کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب میں پنجاب کی مداخلتوں کے بارے میں بات کرتی ہوں تو ہم نے پورا قانونی فریم ورک مکمل کر لیا ہے، اب ہم ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کی سطح کی پیش گوئی کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی ماڈلنگ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسموگ میں کمی کے لیے مقامی حکمتِ عملی اپنانا مداخلت کا ایک اہم حصہ تھا، اس لیے ہم نے اسموگ میں کمی کے لیے کثیر شعبہ جاتی نقطہ نظر اختیار کیا۔

انہوں نے بتایا کہ 2 ماہ قبل درآمد کی گئی اسموگ گنز لاہور میں تعینات کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ درست پیش گوئی کے لیے ہمارے پاس پنجاب بھر میں 41 ایئر مانیٹرز ہیں، اور 2026 تک یہ تعداد 100 تک پہنچا دی جائے گی۔
پنجاب حکومت کے اسموگ میں کمی کے اقدامات
مریم اورنگزیب نے پنجاب حکومت کی جانب سے اسموگ پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات کی فہرست بیان کی۔
انہوں نے زور دیا کہ پنجاب کے پاس اب ایک جدید ماحولیات فورس موجود ہے، صوبائی حکومت کے اقدامات گنواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک سبسڈی پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں 80 فیصد رقم حکومت ادا کر رہی ہے، اور لاہور ڈویژن میں اب 5 ہزار سپرسیڈر موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فصلوں کی باقیات جلانے والے علاقوں کا نقشہ تیار کیا گیا، زراعت کی مشینی کاری میں سرمایہ کاری کی گئی، اور صنعتی یونٹس کی نگرانی کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔
سینئر صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب بھر میں تقریباً 11 ہزار اینٹوں کے بھٹوں کی نقشہ بندی کی گئی، اور جن کے پاس زِگ زَیگ ٹیکنالوجی نہیں تھی، انہیں بند کر دیا گیا۔
پنجاب کا کلائمیٹ چینج وژن 2025
مریم اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ پنجاب کا ’کلائمیٹ چینج وژن 2025‘ اگلے 10 سال کے لیے پالیسی اور عملی منصوبہ بیان کرتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پنجاب حکومت نے پہلی بار گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفیکیٹس متعارف کرائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیف سٹی کیمروں کے ذریعے گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی نشاندہی کر رہے ہیں، ہمارے پاس پنجاب کلین ایئر پروگرام ہے، جس میں پرانی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے لیے بائی بیک پالیسی بھی شامل ہے۔
سینئر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ پہلی بار ہمارے پاس موبائل فیول ٹیسٹنگ لیبز ہیں، ای پی اے پنجاب نے پیٹرول اسٹیشنز پر پیٹرول کے معیار کو جانچنے کے لیے فیول ٹیسٹنگ شروع کر دی ہے، پچھلے 8 مہینوں میں پنجاب میں ایک ہزار 100 الیکٹرک بسیں پہنچ چکی ہیں۔

پنجاب کے اسکولوں میں 30 اکتوبر سے لازمی ری سائیکلنگ بینز
پنجاب کی سینئر وزیر نے جاپان کے اپنے حالیہ دورے پر بھی روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ جاپان میں پورا ویسٹ مینجمنٹ نظام الگ الگ کوڑا کرکٹ جمع کرنے پر مبنی ہے، اس لیے وہ ٹیکنالوجی پاکستان نہیں لائی جا سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم اس ٹیکنالوجی اور ویسٹ انسی نیریٹرز کے لیے چین جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ منصوبہ اسکولوں میں شروع کیا ہے، کیوں کہ ہمیں لگا کہ اسکول اس کے آغاز کے لیے بہترین جگہ ہیں، تاکہ اسے نصاب میں بھی شامل کیا جا سکے، 30 اکتوبر کے بعد اسکولوں میں 5 ری سائیکلنگ بینز رکھنا لازمی ہوگا۔
پاکستان، خاص طور پر لاہور میں فضائی آلودگی ایک سنگین ماحولیاتی اور عوامی صحت کا بحران بن چکی ہے۔
سرحد پار آلودگی کا رجحان
مریم اورنگزیب نے فضائی آلودگی سے متعلق ڈیٹا کی کمی پر بھی اظہارِ خیال کیا اور ’سرحد پار آلودگی‘ کے رجحان کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ لاہور اور ملتان میں بلند ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کی بڑی موسمی وجہ وہ مشرقی ہوائیں ہیں، جو بھارت کی جانب سے آتی ہیں، یہ ہوا کا رخ موسمی اے کیو آئی سطحوں میں بڑا کردار ادا کرتا ہے اور ایک اہم وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک سرحد پار انتظام شروع کیا تھا لیکن حالیہ واقعات کے باعث اب ہم اسے اقوام متحدہ یا عالمی بینک کے ساتھ آگے بڑھا سکتے ہیں۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ ’بریتھ پاکستان‘ ایک بہترین مہم ہے جو ماحولیاتی آگاہی پھیلا رہی ہے، یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، اور ہم جو بھی انتخاب کرتے ہیں اس کے ماحولیاتی اور موسمیاتی اثرات ہوتے ہیں۔
فضائی آلودگی کا مسئلہ
کبھی باغوں کے شہر کے طور پر مشہور لاہور اب دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شمار ہوتا ہے، جہاں PM2.5 کی سطح عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی مقرر کردہ محفوظ حد سے کہیں زیادہ ہے۔
کراچی، فیصل آباد اور پشاور جیسے بڑے شہر بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جن کی بڑی وجوہات صنعتی اخراج، گاڑیوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات جلانا، اور ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کی کمی ہیں۔
یہ کانفرنس اقوام متحدہ اور حکومتِ پنجاب کے تعاون سے منعقد کی جا رہی ہے، پاکستان بزنس کونسل نالج پارٹنر کے طور پر شامل ہے، جب کہ اپسوس، کلائمیٹ فارورڈ پاکستان ) اور کاربن ٹریک) تحقیقاتی شراکت دار ہوں گے۔
اس کانفرنس کا مقصد قابلِ عمل حل پیش کرنا، اعلیٰ سطح کے مکالمے کو فروغ دینا، اور پاکستان میں صاف ہوا کے لیے اجتماعی اقدامات کو آگے بڑھانا ہے۔
اجلاسوں میں مختلف موضوعات زیرِ بحث آئیں گے، جن میں حکومتی پالیسی فریم ورک، صاف ہوا کے لیے مالی معاونت، اسموگ اور صنعتی ذمہ داری، عدالتی سرگرمی، عوامی صحت پر اثرات، قومی سطح پر فضائی معیار کے معیار، اور سرحد پار آلودگی پر علاقائی تعاون شامل ہیں۔
آج کے اجلاس میں جن نمایاں شخصیات کے خطاب کی توقع ہے، ان میں وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مصدق ملک، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب، دیگر وفاقی و صوبائی وزرا، سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک، اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے سینئر عہدیداران، عالمی صحت کے ماہرین، ماہرِ اقتصادیات، اور کارپوریٹ رہنما بھی اس اہم مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
یہ اقدام کئی معروف تجارتی اداروں اور عوامی و نجی تنظیموں کی حمایت سے ممکن ہوا ہے، جن میں انگلش بسکٹ مینوفیکچررز، بینک آف پنجاب، محکمہ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی پنجاب، او موڈا و جیکو، نشاط گروپ، اور این ڈی ایم آر ایف شامل ہیں۔
ڈان میڈیا کے مطابق یہ شراکت داری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مختلف شعبے پاکستان میں تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط اور پھیلتا ہوا اتحاد تشکیل دے رہے ہیں۔