پاک افغان کشیدگی کے بعد طورخم بارڈر ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پاک افغان حکام فورسز کے درمیان گزشتہ رات فائرنگ اور کشیدہ صورتحال کے پیش نظر طورخم بارڈر دونوں اطراف سے تجارتی سرگرمیوں اور مسافروں کی پیدل آمد ورفت کے لیے بند کر دیا گیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طورخم بارڈر کی بندش سے دونوں جانب ہر قسم کی آمد و رفت اور پیدل جانے والے مسافروں کی نقل و حرکت رک گئی ہے، تمام مال بردار گاڑیوں کو لنڈی کوتل منتقل کردیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طورخم بارڈر دونوں اطراف سے تجارتی سرگرمیوں اور پیدل آمدورفت کے لیے بند ہونے سے دونوں جانب کے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا ہوگا، تاہم مووجدہ صورت حال میں سرحد کو بند کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 21 فروری کو پاکستانی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد کے دونوں جانب تعمیراتی سرگرمیوں پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے لوگوں کی سرحد پار نقل و حرکت اچانک معطل کردی گئی تھی۔
مارچ میں صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی تھی، جب پاکستان اور افغان طالبان کی افواج کے درمیان سرحد پر فائرنگ کے تبادلے میں 6 فوجیوں سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
متعدد مکانات، ایک مسجد اور کلیئرنگ ایجنٹس کے کچھ دفاتر کو توپ خانے کی گولا باری سے نشانہ بنایا گیا تھا اور سرحد پار فائرنگ کا سلسلہ 3 روز تک جاری رہا تھا۔
اس کے بعد سرحد کے دونوں جانب قبائلی عمائدین اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہوئے تھے۔
پاکستانی جرگے کے ارکان نے اپنے افغان ہم منصبوں کو بتایا کہ سرحد صرف اسی صورت میں کھولی جائے گی جب وہ ’دونوں طرف سرحد کے موجودہ ڈھانچے میں کسی بھی تبدیلی کے بارے میں ایک دوسرے کو آگاہ کرنے کے لیے طے شدہ پروٹوکول اور معاہدوں کی مکمل پاسداری کریں گے‘۔
افغان فریق کو بتایا گیا کہ پاکستان سرحد پار کسی بھی تعمیراتی یا تزئین و آرائش کی سرگرمی کو برداشت نہیں کرے گا، کیوں کہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان یہ فیصلہ اور اتفاق کیا گیا تھا کہ سرحد کے زیرو پوائنٹ کے قریب کوئی اضافی ڈھانچہ نہیں بنایا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ ملاقات اور بعد ازاں ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کے دوران افغان فریق کا ردعمل اور رویہ ’مثبت‘ رہا۔
اس کے بعد سے انہوں نے افغان سرحدی فورسز کو متنازع چیک پوسٹ کی تزئین و آرائش یا تعمیر نو سے گریز کیا تھا، جسے افغان فریق زنگالی پوسٹا کے نام سے پکارتا ہے۔
طورخم میں کسٹم حکام نے کہا ہے کہ سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا تھا، کیوں کہ افغانستان کو برآمدات رک گئی تھیں، مزید برآں افغانستان سے درآمدات کی معطلی کی وجہ سے 54 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
بعد ازاں دونوں جانب کے جرگے کے ارکان میں کامیاب مذاکرات کے بعد 27 دن بعد طورخم سرحد کو کھولا گیا تھا، اس دوران تجارتی مال سے لدے 5 ہزار ٹرک پھنس گئے تھے، اور تاجروں سمیت ٹرانسپورٹرز کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔