دفترِ خارجہ نے ہفتے کی شب افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کے دوران دیے گئے بیانات کی سخت مذمت کرتے ہوئےکہا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانےکی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے سے افغان حکام اپنے علاقائی امن کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
واضح رہے کہ افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے رواں ہفتے کے آغاز میں بھارت کا دورہ کیا تھا، یہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت اور طالبان حکومت کے درمیان پہلا اعلیٰ سطح کا رابطہ تھا۔
9 اکتوبر کی شب کابل میں ہونے والے دھماکے کے حوالے سے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں امیر خان متقی نے اس واقعے اور اس میں مبینہ طور پر پاکستان کے کردار کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں، انہیں وہ خود حل کرے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد تنظیم یا گروہ باقی نہیں رہا، اگر دیگر ممالک بھی اسی طرح اپنے اندر امن قائم کرلیں جیسے ہم نے افغانستان میں کیا، تو پورے خطے میں امن ہو جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پچھلے 8 مہینوں میں افغانستان میں ایک معمولی واقعہ بھی پیش نہیں آیا، 4 سالوں سے افغانستان کی سرزمین سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا، یہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے جو ہم نے پیش کیا ہے۔
جاری ہونے والے بیان میں دفتر خارجہ نےکہا کہ بھارت-افغانستان کے مشترکہ اعلامیے کے بعض نکات پر پاکستان کے شدید تحفظات افغانستان کے سفیر کو وزارتِ خارجہ میں ایڈیشنل سیکریٹری کے ذریعے پہنچا دیے گئے ہیں۔
🔊PR No.3️⃣0️⃣4️⃣/2️⃣0️⃣2️⃣5️⃣
Pakistan raises its concerns on the elements of India-Afghanistan Joint Statement and Remarks by Afghan Acting Foreign Minister in India
🔗⬇️https://t.co/ckCpc3YWB3 pic.twitter.com/xklLmJ2s0f
— Ministry of Foreign Affairs – Pakistan (@ForeignOfficePk) October 11, 2025
دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے افغان نگران وزیرِ خارجہ کے اس مؤقف کو بھی سختی سے مسترد کیا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان نے بارہا افغانستان میں موجود ’فتنۃ الخوارج‘ اور ’فتنۃ الہند‘ جیسے دہشت گرد عناصر کے بارے میں معلومات شیئر کی ہیں، جو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اور انہیں وہاں موجود عناصر کی حمایت حاصل ہے۔
دفتر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے سے افغان نگران حکومت اپنے خطے اور اس سے آگے امن و استحکام کے قیام کی ذمہ داریوں سے بری نہیں ہو سکتی۔
مشترکہ اعلامیے پر تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
مشترکہ اعلامیہ کشمیری عوام کی قربانیوں اور ان کے حقِ خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کے جذبات کے لیے انتہائی غیر حساس ہے۔
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان نے اسلامی بھائی چارے اور اچھے پڑوسی کے جذبے کے تحت گزشتہ چار دہائیوں سے تقریبا 40 لاکھ افغان شہریوں کی ’کھلے دل کے ساتھ‘ میزبانی کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اب جبکہ افغانستان میں رفتہ رفتہ امن بحال ہو رہا ہے، تو پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کے اپنے وطن واپسی کا وقت آ گیا ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ دیگر تمام ممالک کی طرح اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق پاکستان کو اپنے ملک میں غیر ملکی شہریوں کی موجودگی کو منظم کرنے کا حق حاصل ہے۔
ساتھ ہی وضاحت کی کہ افغان شہریوں کے لیے تعلیم اور علاج کی ضرورتوں کے پیش نظر پاکستان نے میڈیکل اور اسٹڈی ویزے جاری کیے۔
اسلامی بھائی چارے اور ہمسائیگی کے جذبے کے تحت پاکستان، افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرتا رہے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک پُرامن، مستحکم، علاقائی طور پر منسلک اور خوشحال افغانستان دیکھنے کا خواہاں ہے، اسی لیے پاکستان نے افغانستان کو ہر ممکن تجارتی، اقتصادی اور رابطہ سہولتیں فراہم کیں، یہ اقدامات دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور معاشی و سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ہیں۔
تاہم دفتر خارجہ نے زور دیا کہ حکومت پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کی حفاظت اور سلامتی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔
دفتر خارجہ نے آخر میں کہا کہ پاکستان توقع رکھتا ہے کہ افغان نگران حکومت اس مقدس مقصد کے حصول میں پاکستان کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گرد عناصر کے استعمال میں نہ آئے۔
قبل ازیں، وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان کی طرف سے ’دہشت گردی کی ایکسپورٹ‘ دونوں ممالک کے درمیان ماحول کو خراب کر دے گی اور ایسے اختلافات پیدا کرے گی جو پاکستان نہیں چاہتا۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات طویل عرصے سے کشیدہ ہیں، خاص طور پر اس مسئلے پر کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور سرحدی جھڑپوں نے بھی تناؤ میں اضافہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتہ خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان بیانات کے تبادلے سے بھرپور رہا، کیونکہ پاکستان میں سیکیورٹی فورسز کے کئی جوان دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں شہید ہوئے، جبکہ افغانستان نے پاکستان پر اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
جیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ وہ دہشت گردی جو وہ پاکستان کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں، اس ماحول میں تعلقات میں دراڑ پڑے گی، جو ہماری خواہش نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ تعلقات باعزت طریقے سے جاری رہیں۔
دوسری جانب کابل حکومت نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
افغان وزارتِ دفاع نے ایک روز قبل الزام عائد کیا کہ پاکستان نے ایک بار پھر افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، پکتیکا کے علاقے میں ایک بازار پر بمباری کی اور دارالحکومت کابل کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی۔
پشاور میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاک فو ج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس بات کی تصدیق یا تردید سے گریز کیا تھا کہ آیا فوج نے کابل میں کوئی کارروائی کی ہے یا نہیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے آپریشنل بیس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اور اس کے شواہد موجود ہیں۔