فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے مسلح ونگ، القسام بریگیڈز نے ہفتے کو اسرائیلی یرغمالیوں کی ایک مبینہ ”الوداعی تصویر“ جاری کی ہے، جس میں غزہ میں زیرِ حراست 48 اسرائیلی قیدیوں کے چہروں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ مشترکہ تصویر میں تمام زندہ اور ہلاک قیدیوں کے چہرے دکھائے گئے ہیں
القسام بریگیڈز نے آن لائن ایک تصویراتی خاکہ (مونٹیج) جاری کیا، جس میں تمام یرغمالیوں کو ”رون آراد“ (Ron Arad) کے نام سے لیبل کیا گیا ہے۔
یہ اسرائیلی فضائیہ کے افسر کا حوالہ ہے جو 1986 میں لبنان میں گرفتار ہونے کے بعد لاپتہ ہو گیا تھا، اور جس کی قسمت آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ رون آراد کا معاملہ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت کے لیے ایک طویل عرصے سے اذیت کا باعث رہا ہے۔
⚡️BREAKING: Al-Qassam Brigades:
“Because of Netanyahu's intransigence and Zamir's submission:
A farewell picture at the start of the operation in Gaza City.”
All of them are Israeli captives remaining in Gaza labeled with the name “Ron Arad” and a number. pic.twitter.com/Zaf8SQtK0i
— Suppressed News. (@SuppressedNws1) September 20, 2025
تصویر کے ساتھ حماس کی جانب سے ایک پیغام بھی شامل تھا، جو براہِ راست اسرائیلی قیادت کے نام کیا گیا تھا کہ نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی اور زامیر کی تابعداری کی وجہ سے غزہ سٹی میں آپریشن کے آغاز پر الوداعی تصویر“۔
اس پیغام میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور فوجی سربراہ ایال زامیر کو نام لے کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ سٹی میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق انہوں نے زیرِ زمین سرنگیں تباہ کر دی ہیں اور بارودی جالوں سے بھری عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت نے تصدیق کی ہے کہ حالیہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 60 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ یرغمالی غزہ سٹی کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور اسرائیلی بمباری سے ان کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اس سے قبل بھی حماس نے یرغمالیوں کی ویڈیوز جاری کی تھیں، جن میں کچھ کو خراب صحت کی حالت میں دکھایا گیا تھا، اور ایک ویڈیو میں ایک قیدی کو اپنی ہی قبر کھودتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یرغمالیوں کے اہل خانہ اور بین الاقوامی اتحادی، بشمول امریکا ان ویڈیوز کو نفسیاتی جنگ قرار دے چکے ہیں۔
”الوداعی تصویر“ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب تل ابیب اور دیگر اسرائیلی شہروں میں بڑے مظاہروں کی توقع کی جا رہی ہے، جہاں شہری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ کرے اور جنگ بند کی جائے۔