اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اقتصادی بحران کے شکار پاکستان کے ایک سینئر سرکاری افسر کی بیٹی کی پرتعیش شادی پر 24 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
اس صورتحال نے امیروں کے طرز زندگی اور ملک کے ٹیکس نظام میں ان کے معمولی حصے کے درمیان ہوشربا فرق کو بے نقاب کر دیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ایف بی آر (جس نے اب ایسے ’بلیک ہولز‘ کو ہدف بنانا شروع کیا ہے) کو ایک ہائی پروفائل شادی کا کیس ملا ہے جو 6 پرتعیش تقریبات پر مشتمل تھی اور جس پر اندازاً 248 ملین (24 کروڑ 80 لاکھ) روپے خرچ ہوئے۔ شاندار مقامات، ڈیزائنر ملبوسات، ہیروں کے زیورات، آتش بازی اور غیر ملکی کنسلٹنٹس پر فضول خرچی کے باوجود متعلقہ سرکاری افسر اور ان کی بیٹی (دلہن) کے ٹیکس ریٹرنز میں اس خرچ کا کوئی جواز سامنے نہیں آیا۔ جہاں ٹیکس لاگو ہوتا تھا وہاں بھی ادائیگی نہیں کی گئی۔
اخراجات کی تفصیل خاندان کی تقریب سے زیادہ کسی فیچر فلم کے بجٹ جیسی لگتی ہے۔ صرف سجاوٹ اور مقامات کے انتخاب پر تقریباً 4 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، جبکہ 6 تقریبات میں 400 مہمانوں کے کھانے پر 3 کروڑ روپے لگا دیے گئے۔ دلہا دلہن اور قریبی رشتہ داروں کے ملبوسات ساؤتھ ایشین ڈیزائنرز سے تیار کروائے گئے تھے اور ان پر ساڑھے 3 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ سب سے حیران کن خرچ زیورات پر کیا گیا تھا۔ ہیروں اور سونے کے سیٹ جن کی مالیت 8 کروڑ روپے تھی۔ میک اپ، اسٹائلنگ، تفریح اور فوٹوگرافی پر 3 کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ دعوت نامے، تحائف اور کری ایٹیو (تخلیقی) کنسلٹنسی پر تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ مجموعی اخراجات 24 کروڑ 80 لاکھ روپے سے تجاوز کر گئے۔
پر تعیش انداز کو مزید نمایاں کرنے کیلئے ڈرون فوٹیج سے سنیما اسٹائل ویڈیو شوٹس کی گئیں، ملٹی کورس گورمے کھانے (مینو)، آتش بازی اور ڈرون لائٹ شوز، ہاتھ سے تیار کردہ دعوت نامے اور ذاتی نوعیت کے تحائف و موم بتیوں کے گلدستے بھی شامل تھے۔
اس شادی میں دولت کی کھلے عام نمائش کی گئی لیکن ایف بی آر (ٹیکس حکام) کا کہنا ہے کہ اخراجات کو درست ثابت کرنے کیلئے کوئی ڈیکلیریشن موجود نہیں۔ آمدنی کے ذرائع بھی نامعلوم ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سروسز خفیہ طور پر حاصل کی گئیں، وینڈرز کو نقد ادائیگی کی گئی اور کوئی انوائس موجود نہیں۔ یہ ٹیکس کی جانچ پڑتال سے بچنے کی عام ترکیب ہے۔
دلہن نے کینیڈا، برطانیہ، میکسیکو اور متحدہ عرب امارات کے کئی دورے کر رکھے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیے گئے اعداد و شمار کے برعکس ان کا اصل طرز زندگی بہت زیادہ شاندار ہے۔
ٹیکس حکام کے مطابق یہ کیس ٹیکس چوری کے انتظامی مسئلے کی بہترین مثال ہے۔ امیر طبقے کی شادیاں، بیرونِ ملک سفر، جائیداد اور زیورات پر ہونے والا پرتعیش خرچ اکثر سامنے نہیں آتا اور ٹیکس کے دائرے سے باہر رہتا ہے۔
ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ بالکل وہی چھپی ہوئی دولت ہے جس کا ریاست سراغ لگانے میں ناکام رہتی ہے، ایسی تقریبات میں کروڑوں خرچ ہوتے ہیں لیکن ایک روپیہ تک ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک متوازی معیشت ہے جو نظام کی نظروں سے اوجھل ہے۔
انصار عباسی