غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے 21 نکاتی امریکی منصوبے کی تفصیلات سامنے آگئیں

Calender Icon اتوار 28 ستمبر 2025

امریکا نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک 21 نکاتی منصوبہ تیار کیا ہے جس کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ یہ منصوبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کچھ عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو غزہ میں ہی رہنے کی ترغیب دی جائے گی اور مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس منصوبے میں یرغمالیوں کی رہائی، حماس کے غیر مسلح ہونے اور غزہ کو ایک غیر عسکری خطہ بنانے جیسے نکات شامل ہیں۔

امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف کی سربراہی میں تیار ہونے والا یہ منصوبہ آئندہ دنوں میں مزید واضح اور حتمی شکل اختیار کرے گا۔ تاہم اس میں کئی ایسے نکات بھی ہیں جنہیں اسرائیل کے سخت گیر حلقوں کے لیے قبول کرنا مشکل ہوگا، بالخصوص فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کرنے والا پہلو۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ’فلسطینیوں کو ریاست دینا القاعدہ کو نیویارک کے قریب ریاست دینے کے مترادف ہوگا‘۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پرامید ہیں کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اسرائیلی خبر رساں ادارے “ٹائمز آف اسرائیل“ نے غزہ منصوبے کے 21 نکات کی تفصیلات شئیر کی ہیں، جن کے مطابق:

غزہ کو غیر عسکری اور دہشت گردی سے پاک خطہ بنایا جائے گا تاکہ یہ اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ رہے۔

غزہ کی تعمیرِ نو کی جائے گی تاکہ عوام کو بہتر سہولیات میسر آئیں۔

اسرائیل اور حماس کے منصوبے پر اتفاق کے فوراً بعد جنگ ختم ہوگی اور اسرائیلی فوج بتدریج انخلا کرے گی۔

اسرائیل کی جانب سے منصوبہ قبول کرنے کے 48 گھنٹے کے اندر تمام زندہ اور جاں بحق یرغمالیوں کو واپس کیا جائے گا۔

یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل سیکڑوں فلسطینی قیدیوں اور ہزار سے زائد گرفتار غزہ کے شہریوں کو رہا کرے گا۔

حماس کے وہ ارکان جو پُرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے، انہیں عام معافی دی جائے گی جبکہ دیگر کو محفوظ راستہ دیا جائے گا۔

معاہدے کے بعد روزانہ کم از کم 600 ٹرک امداد غزہ میں داخل ہوں گے، بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور ملبہ ہٹانے کا کام شروع ہوگا۔

امداد کی تقسیم اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانبدار ادارے کریں گے، دونوں فریق مداخلت نہیں کریں گے۔

غزہ میں عبوری ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہوگی جسے امریکا اور عالمی ادارے نگرانی فراہم کریں گے، بعد ازاں اصلاحات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو کردار مل سکتا ہے۔

ماہرین کی مدد سے ایک معاشی منصوبہ تیار ہوگا تاکہ غزہ کو جدید خطوط پر دوبارہ بسایا جاسکے۔

ایک خصوصی معاشی زون بنایا جائے گا جہاں کم ٹیرف اور سرمایہ کاری کی ترغیبات دی جائیں گی۔

کسی کو غزہ سے زبردستی نہیں نکالا جائے گا، عوام کو یہیں بہتر مستقبل کی ضمانت دی جائے گی۔

حماس کو غزہ کی حکومت میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا اور عسکری تنصیبات ختم کی جائیں گی۔

خطے کے شراکت دار ممالک سلامتی کی ضمانت دیں گے تاکہ غزہ امن قائم رکھے۔

عرب ممالک کے تعاون سے ایک عبوری بین الاقوامی فورس غزہ میں تعینات ہوگی جو مقامی پولیس کو تربیت دے گی۔

اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا اور فوجی علاقے عالمی فورس کے حوالے کرے گا۔

اگر حماس نے منصوبہ مسترد کیا تو بھی غیر عسکری علاقوں میں یہ نکات نافذ ہوں گے۔

اسرائیل قطر میں مزید حملے نہیں کرے گا، امریکا اور عالمی برادری قطر کے ثالثی کردار کو تسلیم کرے گی۔

غزہ اور اسرائیل کی آبادی میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بین المذاہب مکالمہ شروع کیا جائے گا۔

جب غزہ کی تعمیرِ نو مکمل ہوگی اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کرے گی تو فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ کھل سکتا ہے۔

امریکا اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کے ذریعے پُرامن بقائے باہمی کے سیاسی افق پر بات چیت کرے گا۔

یہ منصوبہ فی الحال ابتدائی نوعیت کا ہے اور تفصیلات پر مزید مذاکرات متوقع ہیں، تاہم اس نے غزہ کے مستقبل اور فلسطینی ریاست کے قیام کی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔