وفاقی حکومت اور آزاد و جموں و کشمیر کی حکومت نے احتجاجی مظاہرین کو مذاکرات کی بحالی کی دعوت دے دی۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوارالحق کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے 90 فیصد مطالبات ہماری موجودگی میں تسلیم کیے تھے، امیر مقام اور میں نے ضمانت دی تھی کہ ان مطالبات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایکشن کمیٹی سے 12گھنٹے تک مذاکرات ہوئے، آخر میں مہاجرین کی نشستیں ختم کرنا اور آزاد کشمیر کی وزارتوں کی تعداد میں کمی کے مطالبات کیے گئے، ان دونوں مطالبات کے لیے آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم درکار تھی۔
طارق فضل چوہدری نے کہا کہ دو مطالبات کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت کی وجہ سے مذاکرات میں ڈیڈلاک آگیا، پھر 29 ستمبر سے ایکشن کمیٹی نے مختلف اضلاع میں پُرامن احتجاج شروع کیا جس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے 90 فیصد مطالبات مانے جا چکے ہیں اور تحریری معاہدے کی شکل میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مذاکرات ختم نہیں کیے، اب ان کا احتجاج پرامن نہیں اور پرتشدد احتجاج میں بدل چکا ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ تشدد کسی بھی معاملے کا حل نہیں ہے۔
ڈاکٹرطارق فضل چوہدری نے کہا کہ ہم آج بھی عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات اور اس معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا کہ ہر مسئلےکا حل مذاکرات ہی ہوتے ہیں، اشتعال کو منظم قوت کے طور پر استعمال کرنا یہ صرف ریاست میں آرمڈ فورسز ہی اس طاقت کا استعمال کرسکتی ہیں، جب آپ عام شہریوں کے ذریعے اشتعال دلانے کی کوشش کریں گے تو پھر وہ اشتعال انارکی، افراتفری اور انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے 90 فیصد مطالبات منظور ہوچکے ہیں باقی 10 فیصد کے لیے میں اور وفاقی حکومت آپ کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تشدد کے راستے سےکسی مقصد کا حصول ممکن نہیں ہے، آپ اس مذاکراتی عمل کو بحال کریں، ہمیں انارکی اور تشدد سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت اور آزاد کشمیر حکومت کی احتجاجی مظاہرین کو مذاکرات کی بحالی کی دعوت

