بی ایل اے اور دیگر گروہوں کو افغانستان سے سپورٹ ملتی رہی ہے، گلزار امام شمبے

Calender Icon جمعرات 2 اکتوبر 2025

شدت پسند گروہوں کے اندرونی ڈھانچے، نوجوانوں کی بھرتی اور عسکریت پسندی سے واپسی کے حوالے سے اہم انکشافات شامل ہیں۔
گلزار امام شمبے نے کہا کہ بعض طلبا تنظیمیں اصل میں عسکری تنظیموں کے لیے بھرتی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ نوجوان طالبعلموں کو تدریجی طور پر عسکریت کی طرف مائل کیا جاتا ہے، اور کئی بار تنظیموں کے اندر آپسی تنازعات میں بھی شدت پسند مارے جاتے ہیں۔ شمبے نے اپنی ذاتی تجرباتی کہانی اور دیگر اہم پہلوؤں کے بارے میں بھی بات کی۔
شمبے کا کہنا ہے کہ بی وائی سی اور اسی طرز کی دیگر تنظیمیں بعض اوقات بی ایل اے جیسی تنظیموں کی نرسری کا کام کرتی ہیں، جہاں سے نوجوان بعد ازاں عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
 
انہوں نے بتایا کہ تنظیمی اندرونی جھگڑوں میں بھی افراد مارے جاتے ہیں اور اکثر ان واقعات کی اصل وجوہات خاندانوں کو چھپا کر بتائی جاتی ہیں۔ شمبے نے اپنے دورِ جدوجہد (2014-15 کے آس پاس) کے دوران اپنے اور مخالف دھڑے کے درمیان اسی نوعیت کے جھگڑوں کا ذکر کیا۔
شمبے نے ماہ رنگ بلوچ کے والد غفار لانگو کے بارے میں کہا کہ افغانستان میں سیاسی تبدیلیوں کے بعد غفار لانگو نے خیر بخش مری کو جوائن کیا اور بعد ازاں پہاڑوں کی طرف جا کر مسلح جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ شمبے نے غفار لانگو کی ریاست مخالف سرگرمیوں کی تصدیق کی۔
شمبے کے مطابق بی ایل اے اور دیگر گروہوں کو افغانستان سے اسلحہ اور پناہ گاہوں کی سپورٹ ملتی رہی ہے، اور وہاں بلیک مارکیٹ کے ذریعے جدید آلات اور ہتھیار دستیاب ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے سابقہ عالمی و علاقائی حالات کو اس سلسلے میں مؤثر قرار دیا۔
  شمبے نے اعتراف کیا کہ بہت سی تنظیمیں منشیات اور دیگر غیر قانونی کاروباروں سے پیسہ جمع کرتی ہیں تاکہ اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکیں۔
  شمبے نے کہا کہ دنیا بھر میں کئی مزاحمتی یا عسکری تنظیمیں وقت کے ساتھ مفاہمت اور سیاسی جدوجہد کی راہ اپناتی ہیں۔ انہوں نے خود بھی عسکریت پسندی ترک کر کے سیاسی جدوجہد کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کیا اور سمجھایا کہ سیاسی راستہ ہی پائیدار حل فراہم کر سکتا ہے — عسکریت پسندی مسئلے کا حل نہیں۔