یروشلم کے اخبارات اور کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے سِٹیزن لیب کی متوازی تحقیقات کے مطابق اسرائیل کی فنڈنگ سے فارسی زبان میں آن لائن مہمات نے جعلی سوشل میڈیا شناختوں اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے استعمال سے ایران کے سابق بادشاہ کے بیٹے رضا پہلوی کی شبیہ بہتر بنانے اور ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق ان مہمات میں اوتارز (جعلی شناختوں) کا استعمال کیا گیا، جو ایرانی شہریوں کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں، تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ مہمات شاہی نظام کی بحالی کے حق میں آوازیں بلند کر رہی تھیں اور یہ اس وقت چلائی گئیں جب اسرائیل ایران پر حملے کر رہا تھا، اور تہران کی ایوین جیل پر فضائی حملے کیے گئے تھے۔
اسرائیلی اخبار دی مارکر اور ہارٹز کے مشترکہ انکشاف کے مطابق یہ ایک بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل مہم تھی، جو اسرائیل سے چلائی جا رہی تھی اور ایک نجی ادارے کی مالی مدد سے کام کر رہی تھی، جسے اسرائیلی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔
منصوبے سے براہ راست واقف ذرائع کے مطابق فارسی بولنے والے افراد کو ایکس اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر جعلی اکاؤنٹس چلانے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا، جہاں وہ مصنوعی ذہانت کے آلات استعمال کرتے ہوئے پیغامات اور مواد تخلیق کرتے تھے۔
یہ نتائج 2023 کے اوائل میں رضا پہلوی کے اسرائیل کے نمایاں دورے کے تناظر میں دیکھے جا رہے ہیں، اس دورے کے دوران، جس کی میزبانی اُس وقت کی انٹیلی جنس وزیر گیلا گملیئل نے کی تھی، پہلوی نے ایران میں پرامن تبدیلی کی وکالت کی مگر بیرونی مدد کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی تحریک بین الاقوامی حمایت کے کسی نہ کسی عنصر کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔
جب ان سے اُن کے دورے کے ردعمل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے صحافیوں سے کہا تھا کہ جواب آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے، سوشل میڈیا دیکھیں۔
تحقیقات کے مطابق اسرائیل میں موجود یہ آپریشن فعال طور پر رضا پہلوی کی عوامی شبیہ بہتر بنانے پر کام کر رہا تھا، مہم میں شامل کچھ افراد نے یہ بھی بتایا کہ انہیں گملیئل (جو وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں) کو بھی فروغ دینے کے لیے دباؤ کا سامنا تھا۔
اسی دوران یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے سٹیزن لیب کے محققین نے ایک اور اسرائیل نواز فارسی زبان کا اثر و رسوخ پیدا کرنے والا نیٹ ورک دریافت کیا، جو ان کے اندازے کے مطابق یا تو براہِ راست اسرائیلی حکومت یا اس کے کسی ٹھیکیدار کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔
لیب کی رپورٹ پرزن بریک میں 50 سے زائد غیر حقیقی اکاؤنٹس کا نیٹ ورک شناخت کیا گیا، جن میں سے بیشتر کی پروفائل تصاویر اے آئی سے بنائی گئی تھیں، یہ نیٹ ورک 2024 کے اوائل میں فعال ہوا اور اس کی سرگرمیاں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی دیں۔
23 جون کو ایوین جیل پر حملے کے دوران، ان اکاؤنٹس نے صبح 11:52 بجے جیل کے علاقے میں میڈیا کی ابتدائی رپورٹس سے بھی پہلے دھماکوں کے بارے میں پوسٹ کرنا شروع کر دیا، اس کے فوراً بعد، نیٹ ورک نے اے آئی سے تیار شدہ ایک جعلی ویڈیو پھیلائی جس میں جیل پر دھماکے دکھائے گئے تھے، جسے بعد میں بین الاقوامی میڈیا نے بھی اٹھا لیا۔
سٹیزن لیب نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ انتہائی غیر ممکن ہے کہ کسی تیسرے فریق کو آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) کے منصوبوں کا پیشگی علم ہو اور وہ اتنی جلدی ایسا مواد تیار کر سکے۔
NEW REPORT: We uncovered a coordinated network of fake X profiles that has been spreading AI-generated content to induce revolt in #Iran. We call this network “PRISONBREAK”.
Read the report ➡️ https://t.co/UfvKBA1cXS
— The Citizen Lab (@citizenlab) October 3, 2025
حملے کے بعد، نیٹ ورک نے ایرانی شہریوں کو جیل کی طرف مارچ کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو آزاد کرا سکیں، جسے ممکنہ طور پر فساد بھڑکانے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
ان مہمات نے دیگر جعلی مواد بھی پھیلایا، جیسے ایک ایرانی گلوکار کی ڈیپ فیک ویڈیو اور بی بی سی فارسی کی ایک جعلی اسکرین شاٹ جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایرانی اعلیٰ حکام ملک چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں، بی بی سی فارسی نے تصدیق کی کہ ایسی کوئی خبر شائع نہیں ہوئی تھی۔
رضا پہلوی کی حمایت کے ان اقدامات کو کچھ ماہرین شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
تل ابیب کے انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز سے وابستہ راز زیمت نے کہا کہ اگرچہ ایرانی عوام تبدیلی چاہتے ہیں، مگر بادشاہت کی بحالی کوئی مقبول مطالبہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھ سکتا ہوں کہ وہ (پہلوی) گملیئل اور اسرائیلی حکومت کے لیے کیوں سہل ہیں، مگر میرا خیال ہے کہ یہ غلطی ہے، آخرکار، یہ آیت اللہ خامنہ ای کے اس بیانیے کو تقویت دیتا ہے کہ اسرائیل اور امریکا ایران کو دوبارہ ایک بادشاہت اور غلام ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
ان آپریشنز میں جدید حربے استعمال کیے گئے تھے، جن میں ایک اے آئی سے تیار کردہ ویڈیو بھی شامل تھی، جس میں نیتن یاہو، گملیئل اور پہلوی کو آزاد تہران کی سڑکوں پر چلتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جسے غیر فطری حد تک وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا تھا۔
یہ نیٹ ورک حقیقی احتجاجی تحریکوں کے نعرے بھی استعمال کرتا تھا، جیسے مرگ بر خامنہ ای (خامنہ ای مردہ باد)، تاکہ اپنے پیغامات کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے زیادہ پھیلایا جا سکے۔
سِٹیزن لیب کے محقق البرتو فِتارَیلی نے اس طرزِ عمل کے خلاف خبردار کیا کہ اگرچہ آمرانہ حکومتیں عام طور پر ایسے آلات اور طریقے استعمال کرتی ہیں، لیکن جمہوری حکومتوں کو ان کی نقالی سے گریز کرنا چاہیے۔
تحقیقات میں دونوں مہمات کے درمیان کچھ روابط بھی سامنے آئے، کیوں کہ سِٹیزن لیب کے بے نقاب کردہ بعض اکاؤنٹس نے #KingRezaPahlavi ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا اور پہلوی کی تقاریر شیئر کیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ فوجی طور پر ہم آہنگ آپریشن دراصل پہلوی کی تشہیر سے جڑا ہوا تھا۔