غزہ، واشنگٹن، دوحا (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد غزہ کے شہریوں میں خوشی کی لہر، اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کی بھی جنگ بندی اپیل، دوسری طرف حماس آمادگی اور بمباری روکنے کےٹرمپ مطالبےکے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے جاری رہے جن میں مزید 66 فلسطینی شہید کردئیے گئے۔
المواسی، نصیرات اور تُّفّاح میں خواتین و بچے نشانہ، سیکڑوں زخمی، خوراک ادویات ناپید، اسپتال تباہ، بے گھر فلسطینی ملبے پر خیمے گاڑنے پر مجبور، امیدیں روشن، مگر اسرائیلی بمباری جاری، حماس کی امن منصوبے پر آمادگی کا عالمی خیر مقدم، اردوان نے امن کا موقع قرار دیدیا، یو این اور ڈبلیو ایچ او کی بھی حمایت، ٹرمپ کا منصوبہ حماس کیلئے ہتھیار ڈالنے کے مترادف، اسرائیل نے 137فلوٹیلا کارکنوں کو ترکی بھیج دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان اور حماس کی مشروط آمادگی کے باوجود اسرائیل کی غزہ پر بمباری اور فائرنگ بدستور جاری ہے، جسکے نتیجے میں صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 66 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جنگ میں شہادتوں کی تعداد 67 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ایک لاکھ 69 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔
ٹرمپ نے حماس کے بیان کے بعد کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس “دائمی امن” کیلئے تیار ہے اور اسرائیل کو بمباری فوراً روکنی چاہیے، لیکن اسرائیل نے نہ صرف حملے جاری رکھے بلکہ المواسی، نصیرات اور تُّفّاح سمیت کئی علاقوں میں بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا۔
المواسی کو اسرائیلی فوج نے “محفوظ انسانی زون” قرار دیا تھا، مگر وہاں بھی بمباری میں دو بچے شہید اور آٹھ افراد زخمی ہوگئے۔ ادھر قطر یونیورسٹی کے پروفیسر عدنان حیجنہ نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ تقریباً حماس کیلئے “ہتھیار ڈالنے” کے مترادف ہے، اسی لیے تنظیم اپنے یرغمالیوں کو آخری سودے بازی تک محفوظ رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ طویل مذاکرات متوقع ہیں جو قاہرہ میں امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی موجودگی میں ہوسکتے ہیں۔ سیکورٹی ماہر راشد المہنادی کے مطابق امریکا ہی واحد طاقت ہے جو نیتن یاہو پر عملی دباؤ ڈال سکتی ہے تاکہ منصوبے کا پہلا مرحلہ نافذ ہو سکے۔