گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں ہفتے کے روز موسم سرما کی پہلی برف باری ہوئی، جسے ایک مثبت اشارہ قرار دیا جا رہا ہے، کیوں کہ گزشتہ کئی سال سے تاخیر سے ہونے والی برف باری کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے جوڑا جا رہا تھا، جس نے خطے کے نازک ماحولیاتی نظام کو متاثر کیا اور مقامی برادریوں میں تشویش پیدا کر دی تھی۔
نجی اخبار کی رپورٹ زیریں علاقوں میں جمعہ اور ہفتہ کے روز کہیں کہیں بارش ہوئی، جس سے درجہ حرارت میں نمایاں کمی واقع ہوئی، مقامی لوگوں کے مطابق 12 ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع علاقے خنجراب ٹاپ اور بابوسر ٹاپ ، میں اس موسم کی پہلی برف باری ہوئی، برف سے ڈھکے مناظر نے درجہ حرارت کو منفی درجے تک پہنچا دیا۔
سیاحتی پولیس کے مطابق بابوسر ٹاپ پر پھسلن کے خدشے کے پیش نظر رات کے وقت ٹریفک بند کر دی گئی، بابوسر روڈ عموماً جون سے نومبر تک کھلا رہتا ہے، اور یہ سیاحوں اور مقامی مسافروں کے لیے گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر حصوں کے درمیان ایک اہم راستہ ہے۔
اسی طرح خنجراب ٹاپ کے علاقے میں بھی تقریباً 3 انچ برف باری ہوئی، جس سے پاکستان اور چین کے درمیان خنجراب پاس کے ذریعے گاڑیوں کی آمدورفت متاثر ہوئی، گلگت، ہنزہ، نگر، دیامر، استور اور بلتستان ڈویژن کے کئی علاقوں میں کہیں کہیں بارش ہوئی، جس کے باعث لوگوں نے گرم کپڑے پہننا شروع کر دیے اور گھروں میں حرارت کے حصول کے لیے انتظامات کیے۔
گلگت بلتستان میں اس موسمِ گرما میں شدید سیلاب آئے، جو گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، برفیلی جھیلوں کے پھٹنے (گلوف)، بادل پھٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ہوئے، ان حادثات میں سیاحوں سمیت 50 سے زائد افرادجان کی بازی ہار گئے تھے، جب کہ اربوں روپے مالیت کا بنیادی ڈھانچہ، زرعی زمینیں، جنگلات اور نجی جائیدادیں تباہ ہو گئی تھیں۔
جولائی میں چلاس کا درجہ حرارت 48.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا، جو 17 جولائی 1997 کے بعد سب سے زیادہ تھا، جب یہ 47.7 ڈگری تک گیا تھا، بونجی میں درجہ حرارت 46.1 ڈگری تک پہنچا، جو 1971 کے بعد سب سے زیادہ تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خطہ جو دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی طور پر حساس علاقوں میں شمار ہوتا ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے، گزشتہ دس برسوں میں گلگت بلتستان میں برفباری اکثر دسمبر کے آخر یا مارچ تک مؤخر ہوتی رہی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسم کے اس تغیر سے برف کے جم کر مستحکم برفانی تودوں میں تبدیل ہونے کا عمل متاثر ہوتا ہے، اور جب گرمی کی شدید لہریں آتی ہیں تو غیر مستحکم برف تیزی سے پگھل جاتی ہے، جس سے اچانک سیلاب اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔
گلگت بلتستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (جی بی ای پی اے) کے ڈائریکٹر خادم حسین نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے گلگت بلتستان کے نازک ماحولیاتی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے، یہ علاقہ 8 ہزار سے زائد گلیشیئرز، 30 ہزار برفیلی جھیلوں، بے شمار پہاڑوں اور وسیع چراگاہوں کا گھر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر منصوبہ بند ترقی، تیزی سے بڑھتی ہوئی سیاحت اور جنگلاتی و سبز علاقوں میں تعمیرات خطے کے ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
انہوں نے گلگت بلتستان کی ماحولیاتی کمزوری اور پاکستان کے ’واٹر ٹاور‘ کے طور پر اس کے اہم کردار پر زور دیا، جو دریائے سندھ کو پانی فراہم کرتا ہے، جو ملک کی 70 فیصد زراعت اور 40 فیصد آبی توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔