پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پلوشہ خان اور وقار مہدی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت پر سخت تنقید کی اور دوطرفہ اتحاد کے باوجود جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا۔
پلوشہ خان نے کہا کہ پنجاب کسی ایک پارٹی کی جاگیر نہیں ہے اور مسلم لیگ (ن) پنجاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری نے ہر مشکل حالات میں (ن) لیگ کا ساتھ دیا اور وزیراعظم شہباز شریف کو بھی انہوں نے نامزد کیا، لیکن اتحاد کا مطلب غلامی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت شہباز شریف کو کرسی پر بیٹھے اچھا نہیں سمجھتی اور (ن) لیگ میں کوئی عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑنے والا نہیں ہے۔
پلوشہ خان نے سیلاب متاثرین کے لیے پیپلز پارٹی کی کاوشوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ریلیف کا زیادہ تر کام پاک فوج نے کیا، جبکہ سندھ حکومت نے سیلاب کو بہترین طریقے سے مینج کیا۔ انہوں نے بی آئی ایس پی کے ذریعے فنڈز دینے پر (ن) لیگ کے اعتراضات پر سوال اٹھایا اور کہا کہ پیپلز پارٹی “چُوری کھانے والے مجنوؤں کی جماعت نہیں”۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بلاول بھٹو نے کبھی مودی کو اپنے گھر نہیں بلایا۔
وقار مہدی نے کہا کہ پنجاب حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور وسطی و جنوبی پنجاب میں بستیاں اب بھی زیر آب ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر صوبائیت یا تقسیم کے نعرے لگانے کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ سندھ حکومت نے کراچی میں لسانیت کی جنگ لڑی۔ انہوں نے تھرکول منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بجلی پورا پاکستان استعمال کر رہا ہے۔
وقار مہدی نے (ن) لیگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 17 منصوبوں کی بات کی، جبکہ پیپلز پارٹی 17 سو منصوبے دکھا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ علی حیدر گیلانی کی سکیورٹی واپس لے لی گئی اور پنجاب میں تقسیم کی سیاست کی مذمت کی۔ انہوں نے بلاول بھٹو کو پاکستان کا لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کے استحکام کے لیے کوشاں ہے۔
رہنماؤں نے زور دیا کہ پیپلز پارٹی سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہی ہے اور سوشل میڈیا یا ٹک ٹاک کو کبھی ذریعہ نہیں بنایا، جبکہ پنجاب حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال رہی ہے۔