پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری تناؤ آج اس وقت شدت اختیار کر گیا، جب سینیٹر شیری رحمٰن نے اتحادی جماعت کو خبردار کیا کہ اگر پیپلز پارٹی کی ’ واضح حمایت‘ حاصل نہ ہوئی تو سینیٹ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے پی پی پی اور (ن) لیگ کی پنجاب قیادت کے درمیان سیلاب متاثرین کے معاوضے اور چولستان نہر منصوبے کے تناظر میں پانی کے حقوق جیسے مسائل پر زبانی جنگ جاری ہے، سندھ میں حکومت رکھنے والی پیپلزپارٹی، پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کے بیانات پر خاص طور پر برہم ہے، جن کی جماعت وفاق میں بھی حکمران ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سینئر نائب صدر شیری رحمٰن نے کہا کہ ’اگر آپ پورا اتحاد توڑنا چاہتے ہیں تو میں پہلے ہی قومی اسمبلی میں کہہ چکی ہوں کہ ہمارے حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کو یقینی مت سمجھیں، اور یہ بھی نہ سمجھیں کہ ہم آپ کو ہر حال میں مستحکم رکھیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر آپ کو ہماری ضرورت نہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے، لیکن یاد رکھیں کہ ہم سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہیں، اور پیپلز پارٹی کی واضح حمایت کے بغیر آپ کے لیے حالات بہت مشکل ہو جائیں گے۔‘
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ معافی اور درگزر ایک بات ہے، لیکن جب آپ ہماری اعلیٰ قیادت، ہمارے چیئرمین اور ان کی بہن کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کیا میرے جذبات اور ہمارے حامیوں کے احساسات مجروح نہیں ہوں گے؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’یہ کیسا اتحاد ہے؟ آپ اسے کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ مقاصد کیا ہیں؟ ایسے سوالات اٹھیں گے۔‘
پیپلز پارٹی کی رہنما نے واضح کیا کہ یہ معاملہ سندھ اور پنجاب کے درمیان نہیں بلکہ وفاق اور عوام کا ہے، اور بتایا کہ 65 لاکھ افراد حالیہ سیلابوں سے متاثر ہوئے۔
انہوں نے تنقید کی کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سیلاب زدگان کو امداد فراہم کرنے کی تجویز کو سندھ اور پنجاب کے درمیان تنازع بنا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ یہ سندھ اور پنجاب کا مسئلہ کیسے ہو گیا؟ باقی لوگ کیا پاکستانی نہیں ہیں؟ ہم ایک وفاقی جماعت ہیں، ہمارے ووٹر پنجاب میں بھی ہیں، تو پھر آپ کا مطلب کیا ہے؟’
انہوں نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر ان کی بطور وزیر خارجہ کارکردگی کے حوالے سے تنقید کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف خود ان کے کام کی تعریف کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ اصل میں کمزور کس کو کر رہے ہیں؟’
شیری رحمٰن نے بلاول کی حالیہ تقرری کا ذکر بھی کیا، جس میں انہیں بھارت کے ساتھ مئی میں ہونے والے تنازع کے بعد پاکستان کا مؤقف عالمی سطح پر پیش کرنے والے وفد کا سربراہ بنایا گیا تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا ارادہ رکھتی ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی، کیونکہ یہ کوئی چھوٹا فیصلہ نہیں اور پارٹی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتی۔
ایک اور سوال کے جواب میں شیری رحمٰن نے کہا کہ ’اتحادی جماعت کو ہم سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہم آپ کے گھر سنبھالیں یا آپ کے کاروبار کو فروغ دیں۔‘
پیپلز پارٹی کی واضح حمایت کے بغیر مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں مشکلات ہوں گی، شیری رحمٰن

