اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزارت اعلیٰ سے علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ اس بات کی واضح مثال بن گیا ہے کہ پارٹی کے بانی عمران خان سے قریب دو خواتین ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن علیمہ خان کے ساتھ ٹکر لینا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔بدھ کے روز گنڈاپور نے وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا، عمران خان نے جیل سے واضح پیغام بھیجا کہ ان کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ کبھی پارٹی کے طاقتور ترین رہنماؤں میں شمار ہونے والے گنڈاپور، علیمہ خان کے ساتھ اقتدار کی کشمکش اور بشریٰ بی بی کے ساتھ پرانی خلیج کے بعد سیاسی طور پر کمزور پڑ گئے تھے۔ذرائع کے مطابق گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات کی ابتدا گزشتہ سال اُس وقت ہوئی جب پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرف احتجاجی مارچ کا فیصلہ کیا ،وہی مارچ جو بعد میں پرتشدد ہو گیا۔ گنڈاپور نے اس وقت سیکورٹی وجوہات اور حکمتِ عملی کے تحت ریلی کو سنگجانی پر روکنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بشریٰ بی بی نے اسے رد کرتے ہوئے مارچ کو ڈی چوک تک جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ایک سینئر پارٹی رہنما کے مطابق، ’’ڈی چوک تک جانے کا بشریٰ بی بی کا فیصلہ حتمی تھا اور گنڈاپور کے اعتراضات نظرانداز کر دئیے گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب پارٹی میں گنڈاپور کی اتھارٹی کو براہِ راست چیلنج کیا گیا۔‘‘وہ وزیر اعلیٰ کے انکار کے باوجود مارچ میں شامل ہوگئی تھیں اور اس کو لیڈ بھی کیا۔بعد ازاں بشریٰ بی بی کے اس بیان سے تنازع بڑھ گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں ڈی چوک پراکیلا چھوڑ دیا گیااور جسے گنڈاپور نے علانیہ طور پر مسترد کیا۔ انہوں نے کہا، ’’میں ابتدا سے آخر تک ان کے ساتھ تھا، اگر وہ کسی اور کی بات کر رہی تھیں تو یہ ان کی رائے ہے، مگر میں نے انہیں نہیں چھوڑا۔‘‘گنڈاپور کو پشاور میں قیام کے دوران بشریٰ بی بی کی سیاسی معاملات میں مداخلت پر بھی شدید اعتراض تھا۔ اگرچہ پارٹی رہنماؤں پر بشریٰ بی بی کا اثر محدود تھا، لیکن عمران خان ان پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔اصل بحران اس وقت سامنے آیا جب گنڈاپور نے کھلے عام علیمہ خان پر الزام لگایا کہ وہ پارٹی میں تقسیم و دراڑ ڈال رہی ہیں اوریہاں تک دعویٰ کردیا کہ انہیں فوجی انٹیلی جنس (ایم آئی) کی مدد مل رہی ہے۔ ایک ویڈیو بیان میں گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے عمران خان کو بتایا ہے کہ علیمہ خان سوشل میڈیا پر پراکسی مہمات کے ذریعے وفادار کارکنوں کو بدنام کر رہی ہیں اور پارٹی اتحاد کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان کے مطابق، ’’علیمہ خان پارٹی تقسیم کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ خان صاحب کی رہائی کے لیے ہمیں متحد کرنا چاہیے تھا، لیکن وہ گروپ بندیوں کو فروغ دے رہی ہیں اور وی لاگرز سے رابطے میں ہیں جو غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔‘‘انہوں نے یہاں تک الزام لگایا کہ پارٹی کے اندر علیمہ خان کو آئندہ چیئرپرسن بنانے کی مہم بھی چل رہی ہے۔انہوں نے خان کو کہا کہ اگر آپ چیئرپرسن منتخب کرنا چاہتے ہیں تو کریں، مگر کھل کر کریں۔علیمہ خان نے اڈیالہ جیل میں اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد گنڈاپور کے الزامات کو مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ’’ان الزامات پر مسکرا رہے تھے۔‘‘ تاہم اندرونی ذرائع کے مطابق گنڈاپور نے خان کے واحد قابلِ بھروسہ رابطہ علیمہ خان کو چیلنج کر کے ایک ’’سرخ لکیر‘‘عبور کر لی تھی۔بشریٰ بی بی اور علیمہ خان دونوں سے کشیدگی نے گنڈاپور کی پارٹی میں پوزیشن کو کمزور کر دیا۔ اگر بشریٰ بی بی کی باتوں کا عمران خان پر گہرا اثر تھا تو علیمہ خان کے سوشل میڈیا اثرورسوخ نے گنڈاپور کو پارٹی کے اندر ہی ’’مجرم ‘‘بنا دیا۔آخرکارکئی سینئر رہنما ان سے فاصلے پر چلے گئے اور عمران خان کے قریبی حلقے نے بھی ان کا دفاع چھوڑ دیا۔ ایک پارٹی رہنما نے کہا، ’’علیمہ خان کے خلاف بیان کے بعد ان کے لیے واپسی ممکن نہیں تھی۔ انہوں نے عمران خان کے اردگرد موجود سب سے طاقتور لوگوں کا اعتماد کھو دیا تھا اور جب ایسا ہوتا ہے تو وفاداری بھی آپ کو نہیں بچا سکتی۔‘‘
انصار عباسی