وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا ہے، اور اب صوبے میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوچکا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا ہے، مگر یہ فیصلہ بظاہر جتنا سادہ نظر آتا ہے، حقیقت میں اتنا ہی پیچیدہ ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کو علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ موصول ہوچکا ہے۔ منظوری کے بعد گورنر اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے، جس میں موجودہ حکومت تحلیل ہونے اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا باضابطہ عمل شروع ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی آسانی سے اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرا پائے گی؟
اسمبلی میں نمبر گیم کیا کہتی ہے؟
خیبر پختونخوا اسمبلی میں مجموعی طور پر 124 نشستیں ہیں، اور وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے لیے 73 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے کُل ارکان کی تعداد 92 ہے، لیکن ان میں سے 35 ارکان آزاد حیثیت رکھتے ہیں، یعنی وہ پی ٹی آئی کی ہدایت کے پابند نہیں۔ مزید یہ کہ 22 ارکان کے حلف نامے جمع ہونے کی خبریں بھی ہیں، جس سے پارٹی کی اندرونی صفوں میں تقسیم کا امکان ظاہر ہوتا ہے۔
ادھر اپوزیشن کے پاس 53 ارکان ہیں، اور اگر وہ صرف 20 مزید ووٹ حاصل کر لے تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے تاکہ متفقہ امیدوار کے نام پر اتفاق کیا جا سکے۔
سیاسی ملاقاتوں کی دوڑ
نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی گزشتہ 24 گھنٹوں سے متحرک ہیں۔ وہ اسپیکر بابر سلیم، وزرا اور پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ ووٹوں کے بکھراؤ سے بچنے کے لیے تمام ارکان کو سہیل آفریدی کے حق میں راضی کیا جائے۔
دوسری طرف اپوزیشن بھی سرگرم ہے۔
اپوزیشن جماعتیں آزاد ارکان سے رابطے میں ہیں اور ممکنہ طور پر ایک ایسا اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہیں جو پی ٹی آئی کی اکثریت کو چیلنج کر سکے۔
اگر آزاد ارکان نے اپوزیشن کا ساتھ دیا تو صورتحال ڈرامائی طور پر بدل سکتی ہے۔
صورتحال کو دیکھا جائے تو نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے لیے یہ انتخاب کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات، آزاد ارکان کی پوزیشن، اور اپوزیشن کی جوڑ توڑ سب عوامل مل کر یہ طے کریں گے کہ اگلا وزیراعلیٰ کس کا ہوگا۔