کراچی(نیوز ڈیسک)’بی بی‘ نامی ایک مادہ بن مانس، جو طویل عرصے سے چڑیا گھر میں تنہائی میں رہ رہی تھی، ہفتے کے روز انتقال کر گئی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بن مانس گزشتہ کئی ماہ سے زیر علاج تھی۔
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے عہدیدار دانیال سیال نے ’بی بی‘ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کی موت کی وجہ ’بڑھاپے‘ کو قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بی بی کافی عرصے سے مختلف طبی پیچیدگیوں میں مبتلا تھی، جو زیادہ تر بڑھاپے کی وجہ سے پیدا ہوئیں، اس کی عمر تقریباً 40 سال تھی۔
کے ایم سی کے ذرائع کے مطابق، بی بی کو پولیس نے ایک کارروائی کے دوران پکڑنے کے بعد چڑیا گھر کے حوالے کیا تھا۔
بی بی کو 2000 میں اس وقت پکڑا گیا تھا، جب وہ اور اس کا نر ساتھی پی ای سی ایچ ایس کے ایک گھر سے بھاگ گئے تھے، پولیس کارروائی کے دوران نر بن مانس مارا گیا تھا، یہ دونوں ایک گھر میں غیر قانونی طور پر بطور ’پالتو جانور‘ رکھے گئے تھے۔
ایک عہدیدار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا نر بن مانس کو اس وقت مارنا پڑا تھا، جب اس نے ایک پولیس اہلکار کو پکڑ لیا تھا، جب کہ بی بی کو قابو میں کر کے چڑیا گھر لایا گیا تھا، جہاں بعد میں اس کا جوڑا ایک اور نر بن مانس کے ساتھ بنایا گیا، وہ نر 3 سال بعد کان میں رسولی کے باعث مر گیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اب چڑیا گھر میں صرف ایک مادہ بن مانس باقی رہ گئی ہے۔
بن مانس آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ میں معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل ہیں، یہ 4 ممالک سے مکمل طور پر ناپید ہو چکے ہیں اور دیگر مقامات پر بھی غیر قانونی جنگلی حیات کی تجارت اور رہائش گاہوں کی تباہی کے باعث شدید خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
جنگلی حیات اور پودوں کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق کنونشن (سی آئی ٹی ای ایس) کے قوانین کے تحت، بن مانسوں کو اپینڈکس I کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق سوائے چند خاص سائنسی مقاصد کے ان کی خرید و فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے۔
سندھ وائلڈ لائف کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے بتایا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ہمارے پاس پاکستان ٹریڈ کنٹرول آف وائلڈ فلورا اینڈ فونا ایکٹ 2012 موجود ہے، جو جنگلی حیات سے متعلق تمام نقل و حرکت کی سخت نگرانی کرتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ رولز 2022 کے رول 86/سب رول 7 کے تحت پرائمیٹس کی درآمد کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چڑیا گھر میں موجود پرائمیٹس ان اقسام میں شامل ہیں، جنہیں ان قوانین کے نفاذ سے قبل مشکوک سودوں کے ذریعے ملک میں لایا گیا تھا، اب جنگلی حیات کی سرحد پار نقل و حرکت پر بین الاقوامی، قومی اور صوبائی سطح پر سخت نگرانی کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قوانین قدرتی ماحول سے پکڑے گئے تمام جانوروں کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرتے ہیں۔