شرم الشیخ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، مصری صدر عبدالفتاح السیسی، ترک صدر رجب طیب اردوان اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے غزہ امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔ یہ معاہدہ، جو ٹرمپ کے 20 نکاتی امن پلان کی بنیاد پر تیار کیا گیا، دو سالہ خونریز جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کے انخلا اور غزہ کی تعمیر نو کی راہ ہموار کرے گا۔
یہ دستخط شرم الشیخ امن سمٹ کے مرکزی ایونٹ کے طور پر منعقد ہوئے، جہاں دنیا بھر سے 30 سے زائد ممالک کے رہنما شریک ہوئے۔ حماس نے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا، جبکہ اسرائیل نے 1700 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو آزادی بخشی۔ معاہدے کے تحت غزہ میں جنگ بندی نافذ ہو گئی ہے، اور انسانی امداد کے ٹرکوں کی آمدورفت شروع ہو چکی ہے۔
اس موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ یہ پوری دنیا کے لیے بہت بڑا دن ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دستخط کی تقریب کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ “آج صرف غزہ کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے بہت بڑا دن ہے۔ اس طرح کے کامیاب دن میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔” انہوں نے ہال میں موجود تمام قائدین کی خوشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “ہم مل کر غزہ کی تعمیر نو کریں گے، اور غزہ امن معاہدے کے لیے سب کا شکر گزار ہوں۔”
ٹرمپ نے مزید کہا کہ “مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ اس امن معاہدے سے غزہ میں امن اور ترقی ہو گی، اور آج غزہ کے عوام کے لیے تاریخی دن ہے۔” انہوں نے دوست ملکوں کے تعاون کی تعریف کی اور کہا کہ “غزہ امن معاہدہ بڑی کامیابی ہے، اور اس سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو گا۔” ٹرمپ نے غزہ امن معاہدے پر سب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ “یہ تاریخی ہے، اور میرے لیے اعزاز ہے۔ اس کی وجہ سے غزہ میں خونریزی رک گئی۔”
امریکی صدر نے اپنی ٹیم کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ میں موجود میری ٹیم نے بھی امن عمل میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے دورِ حکومت میں دنیا بھر میں امن عمل کو نقصان پہنچا، جبکہ امیر قطر کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔” انہوں نے امن معاہدہ عالمی رہنماؤں کی کوششوں سے ممکن ہونے کی بات کی۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ “غزہ امن معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام آئے گا۔ غزہ امن معاہدے کے لیے تعاون پر دوست ملکوں کے شکر گزار ہیں، اور موجودہ حالات میں یہ معاہدہ ناگزیر ہے۔” انہوں نے اسے “بڑی کامیابی” اور “تاریخی دستاویز” قرار دیا، اور کہا کہ “غزہ میں امن معاہدے سے خطے میں امن قائم ہو گا۔”
السیسی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ “غزہ امن معاہدے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔” مصری صدارت نے ٹرمپ کو نائل کالر، مصر کا سب سے اعلیٰ ریاستی اعزاز، عطا کرنے کا اعلان کیا، جو ان کی “امن کی کوششوں” کی علامت ہے۔
پاکستانی وزیراعظم محمد شہباز شریف، جو سمٹ میں خصوصی طور پر شریک ہوئے، نے پریس کانفرنس میں کہا کہ “صدر ٹرمپ امن کے علمبردار ہیں، اور امن کے حصول کے حوالے سے آج تاریخی دن ہے۔” انہوں نے کہا کہ “صدر ٹرمپ کی بدولت جنوبی ایشیا میں امن ممکن ہوا، اور پاکستان نے امن کے نوبل انعام کے لیے صدر ٹرمپ کو نامزد کیا ہے۔”
شہباز شریف نے ایک بار پھر صدر ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کی سفارش کی ۔ امریکی صدر نے کہا کہ “خواہش ہے کہ انڈیا اور پاکستان بہترین ہمسائے بن کر رہیں۔” ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تعریف کی۔
یہ معاہدہ ٹرمپ کے 20 نکاتی پلان پر مبنی ہے، جس میں غزہ کی بحالی، انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی انخلا اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ برطانیہ، اٹلی، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے تعمیر نو کے لیے مالی امداد کا وعدہ کیا ہے۔
عالمی رہنما اسے “گیم چینجر” قرار دے رہے ہیں، جبکہ ایران کی عدم شمولیت اور اسرائیلی نوآبادیوں جیسے مسائل چیلنجز ہیں۔ تاہم، یہ معاہدہ فلسطینی ریاست کی بنیاد اور علاقائی استحکام کی امید کی کرن ہے۔
سمٹ کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلان میں کہا گیا کہ “غزہ کی تعمیر نو اب شروع ہو رہی ہے”، اور دنیا کی نظریں اس تاریخی معاہدے کے نفاذ پر جمی ہوئی ہیں۔