لندن: برطانیہ کے وزیراعظم سر کیئر سٹارمر نے برطانوی پارلیمنٹ میں ایک اہم خطاب کرتے ہوئے شرم الشیخ میں ہونے والے غزہ امن معاہدے کو “تاریخی دن” قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں دیرینہ تنازعے کے خاتمے کی طرف ایک اہم موڑ ہے، جو امریکہ، ترکی، مصر اور قطر کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا۔ سٹارمر نے پارلیمنٹ میں موجود اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ وہ لمحہ ہے جہاں سے تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی، اور نسلیں اسے یاد رکھیں گی۔”
وزیراعظم سٹارمر نے بتایا کہ شرم الشیخ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں 20 زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے بعد یہ معاہدہ حتمی شکل اختیار کر گیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے، جہاں جنگ کی تباہ کاریوں نے ہزاروں خاندانوں کو برباد کر دیا ہے۔ خاص طور پر، غزہ کی تعمیر نو کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ برطانیہ غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی اور حماس کی ہتھیاروں کی عدم فعال کاری میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے ۔
خطاب میں سٹارمر نے غزہ کی جنگ کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس تنازعے میں 20 ہزار بچوں کی جانیں گئیں، جبکہ بڑی تعداد میں بچے زخمی ہوئے۔ “ہزاروں افراد مارے گئے، لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، اور یہ سب کچھ ایک ایسے علاقے میں ہوا جہاں امن کی بجائے تباہی کا راج تھا۔” انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اب غزہ میں جنگ بندی نافذ ہو گئی ہے، اور تمام یرغمال واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ اب توجہ تعمیر نو پر مرکوز کی جائے، اور برطانیہ اس سلسلے میں 20 ملین پاؤنڈ کی فوری انسانی امداد کا اعلان کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ جلد غزہ کی بحالی پر ایک تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرے گا، جس میں فلسطینی اتھارٹی، سعودی عرب، اردن، جرمنی اور اٹلی سمیت دیگر ممالک کے نمائندے شریک ہوں گے۔
یہ خطاب شرم الشیخ اجلاس کے فوری بعد سامنے آیا، جہاں سٹارمر نے ٹرمپ اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بیان برطانیہ کی فلسطین کی تسلیم شدہ ریاست کی حمایت اور دو ریاستی حل کی پالیسی کو مزید مضبوط کرتا ہے، جو جولائی 2025 میں اعلان کی گئی تھی۔ سٹارمر کا یہ خطاب برطانوی پارلیمنٹ میں زبردست داد و ہاتھ ملوانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، اور یہ مشرق وسطیٰ کے امن عمل میں برطانیہ کی فعال شمولیت کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔