ججز کا صرف عارضی تبادلہ ہو سکتا ہے، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شکیل احمد کا اختلافی نوٹ

Calender Icon جمعہ 3 اکتوبر 2025

 سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ و سینیارٹی کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد کا اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا۔
  جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا تبادلہ صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں، جبکہ صدر مملکت نے بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے نوٹی فکیشن جاری کیا، جو غیر آئینی اور غیر ضروری جلدی میں کیا گیا۔
 اختلافی نوٹ کے مطابق صدر کا نوٹیفکیشن قانوناً بے اثر اور عدالتی آزادی کے منافی ہے، نوٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے اس خط کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت، دباؤ، بلیک میلنگ اور سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینئر کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے، ساتھ ہی جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ اسی خط کے بعد ججز کی اسلام آباد ہائی کورٹ منتقلی کا عمل شروع ہوا اور حکومت نے جلدبازی میں مستقل تبادلے کا فیصلہ کیا تاکہ عدالت کی آزادی پر اثر انداز ہوا جا سکے۔
 واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ 25 ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز سینیارٹی اور تبادلے کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے دائر درخواستیں نمٹاتے ہوئے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ صدر کو آرٹیکل 200 کے تحت ججز کی منتقلی کا اختیار حاصل ہے، مگر جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔
 سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ججز کے ٹرانسفر کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، ٹرانسفر کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے اور ججز کے ٹرانسفر سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔
 فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ججز کے ٹرانسفر میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی، ججز کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق ہوا۔
 سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 ٹرانسفر پر قدغن نہیں لگاتا، (ٹرانسفر میں) صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
 فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ججز کی سینیارٹی کا تعین صدر پاکستان کریں گے، ٹرانسفر مستقل یا عارضی ہے، اس کا فیصلہ صدر سروس ریکارڈ دیکھ کر کریں گے۔
  سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ معاملہ سینیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے، اور ہائی کورٹ ججز کے ٹرانسفر سے متعلق درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔
 خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 19 جون کو 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
 عدالت نے 3، 2 کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔
 سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پنہورنے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ صدر پاکستان کو آرٹیکل 200 کے تحت ہائیکورٹ کے جج کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
 فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ اختیار آرٹیکل 175 کے تحت ججوں کی تقرری سے بالکل الگ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو کالعدم نہیں کرتے، منتقلی کو تقرری سمجھنا آئین کی روح کے منافی ہے۔
 عدالت نے قرار دیا تھا کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام عہدے صرف جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہی پر کیے جانے چاہئیں، تو یہ مفروضہ آئین کے معماروں کے ارادے کے خلاف ہو گا، منتقلی ایک الگ آئینی شق کے تحت کی جاتی ہے، جو جوڈیشل کمیشن سے آزاد ہے۔
 عدالت نے صدر پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر نوٹی فکیشن کے ذریعے یہ واضح کریں کہ آیا ججز کی منتقلی مستقل ہے یا عارضی، اور ان کی سینیارٹی کا تعین ججز کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد کیا جائے۔
 بعدازاں صدر مملکت نے 29 جون 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج ڈکلیئر کر دیا تھا جبکہ جسٹس سرفراز ڈوگر اور دیگر 2 ججز کا تبادلہ بھی مستقل قرار دے دیا تھا۔
 بعدازاں یکم جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، جسٹس جنید غفار کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، جسٹس عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ، جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔
 7 جولائی کو وزارت قانون نے صدر مملکت کی منظوری کے بعد چاروں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی تعیناتی کے نوٹیفیکیشن جاری کیے تھے جبکہ 8 جولائی کو چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا تھا۔
 یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کے سپریم کورٹ آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
 سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کو آئینی و قانونی قرار دیا تھا۔
 درخواستوں میں موقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور طے شدہ عدالتی اصولوں کے خلاف ہے، ججز کی سنیارٹی طے کرنے کا مسلمہ طریقہ کار موجود ہے، صدر مملکت کو سینیارٹی طے کرنے کی ہدایت کرنے کی آئین میں گنجائش نہیں۔
 درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئینی بینچ کی جانب سے 19 جون 2025 کے حکم نامے کو کالعدم قرار دیا جائے اور اپیلوں پر فیصلے تک پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات معطل کیے جائیں۔