امریکی سائنس دانوں نے انسانی آواز میں تبدیلی کے اسباب جاننے کے لیے عالمی شہرت یافتہ پاپ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کو تحقیق کا مرکز بنایا اور کئی برس تک ان کی آواز کے ارتقا کا مشاہدہ کیا۔
تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ انسانی لہجہ صرف رہائش گاہ کے فرق سے ہی نہیں بلکہ سماجی ماحول، پیشے اور ذاتی شناخت سے بھی متاثر ہوتا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یونیورسٹی آف مینیسوٹا کے دو محققین نے 2008 سے 2019 کے دوران ٹیلر سوئفٹ کی آواز اور لہجے میں آنے والی تبدیلیوں کو باریک بینی سے پرکھا۔ انہوں نے گلوکارہ کے متعدد انٹرویوز اور گانوں کا تجزیہ کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ وقت کے ساتھ ان کے لب و لہجے میں کیا تغیر آیا۔
ٹیلر سوئفٹ 1989 میں پنسلوانیا میں پیدا ہوئیں اور 13 سال کی عمر میں کنٹری میوزک کے خواب لیے ٹینیسی منتقل ہو گئیں۔ 2008 میں انہوں نے اپنا مشہور ایلبم فئیرلیس ریلیز کیا، بعد ازاں وہ فلاڈیلفیا اور پھر نیویارک جا بسی۔ ہر مرحلے پر ان کی آواز اور اندازِ گفتگو میں تبدیلی محسوس کی گئی۔
تحقیق سے پتا چلا کہ ٹینیسی میں رہتے ہوئے ان کا لہجہ جنوبی امریکی رنگ لیے ہوئے تھا۔ مثلاً وہ لفظ ride کو rod اور two کو tee-you کی مانند ادا کرتی تھیں۔ لیکن جیسے ہی وہ فلاڈیلفیا اور نیویارک منتقل ہوئیں، ان کا لب و لہجہ معیاری امریکی انداز میں ڈھل گیا۔ نیویارک کے دور میں ان کی آواز کی پچ بھی نسبتاً کم ہوئی، جسے سائنس دان زیادہ اعتماد اور قائدانہ شخصیت کی علامت قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی صرف مقام یا پیشے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ عمر کا عنصر بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ 19 سے 30 سال کے درمیان قدرتی طور پر آواز میں کچھ فرق آ جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا کہ جب ٹیلر سوئفٹ صنفی امتیاز یا میوزک انڈسٹری کے حقوق جیسے سماجی موضوعات پر گفتگو کرتی تھیں تو ان کا لہجہ مزید بدل جاتا تھا۔
سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹیلر سوئفٹ کی مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی آواز جامد نہیں بلکہ مسلسل ارتقا پذیر ہے اور یہ فرد کے حالات، ماحول اور شناخت کے مطابق ڈھلتی رہتی ہے۔