گجرات کے علاقے جلال پور جٹاں کے ایک نواحی گاؤں میں رات کے سناٹے میں جو کچھ ہوا، اس نے صرف ایک جانور کو نہیں، ایک پورے خاندان کو توڑ کر رکھ دیا۔ نامعلوم افراد نے ایک کسان کی بھینس پر حملہ کیا — اور اس کی دونوں پچھلی ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔
یہ صرف ایک مجرمانہ کارروائی نہیں تھی۔ یہ حسد، بغض، اور انتقام کے زہر سے آلودہ ذہن کی علامت تھی — ایک ایسا ذہن جو اپنے مخالف کو نقصان پہنچانے کی خاطر کسی حد تک بھی جا سکتا ہے، چاہے وہ حد انسانیت سے نیچے ہی کیوں نہ ہو۔
مظلوم کسان کی زبان سے نکلے الفاظ کسی پتھر دل کو بھی ہلا سکتے ہیں
یہی میرے بچوں کا واحد سہارا تھی۔ اسی کے دودھ سے چولہا جلتا تھا۔ اب ہم بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا ظلم نہیں دیکھا۔ یہ میری محنت کا سرمایہ تھی، میرے بچوں کے رزق کا ذریعہ۔ اب ہم کہاں جائیں؟” کیا کوئی دشمنی اتنی سنگدل ہو سکتی ہے کہ روزی کا ذریعہ، وہ بھی ایک بے زبان جانور، یوں کاٹ دیا جائے؟ یہ سوال صرف پولیس یا عدالت کے لیے نہیں — یہ ہم سب کے لیے ہے۔
پولیس کی تفتیش جاری، مگر انصاف کی راہ کٹھن
پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے اور ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ مگر دیہی علاقوں میں اکثر ایسی وارداتیں “نامعلوم افراد” کے پردے میں دب جاتی ہیں، اور متاثرہ افراد، جو پہلے ہی محروم ہوتے ہیں، مزید مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ پہلا واقعہ نہیں…
بدقسمتی سے یہ واقعہ کوئی پہلا یا منفرد سانحہ نہیں۔ جانوروں کو “بدلے” کا ہدف بنانا ایک خطرناک اور بڑھتا ہوا رجحان بنتا جا رہا ہے:
چند روز قبل اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں ایک ڈیری فارمر کی 10 بھینسیں زہر دے کر مار دی گئیں۔ نقصان؟ تقریباً 80 لاکھ روپے اور تباہ ہوا کاروبار۔
گجرات میں ہی پچھلے سال ایک خاندان کے 22 گھوڑوں کو زہر دے کر قتل کر دیا گیا۔ محرک؟ خاندانی دشمنی اور سماجی حسد۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سعدیہ حسین کا کہنا ہے جب کوئی شخص اپنے مخالف کو براہِ راست نقصان نہیں پہنچا سکتا تو وہ اپنی بھڑاس کمزور یا بے زبان مخلوق پر نکالتا ہے۔ یہ دراصل ایک نفسیاتی بیماری ہے۔
سماجی ماہر پروفیسر آصف محمود کے مطابق یہ رویہ ‘غلط جگہ انتقام کہلاتا ہے۔ ہمارے دیہی معاشرے میں دشمنی کا اظہار اکثر جانوروں یا ذرائع معاش پر حملے کی صورت میں ہوتا ہے۔