اسلام آباد (نیوز ڈیسک)ایک وقت تھا جب ناقدین وزیرِاعظم شہباز شریف کو محض ’’فگر ہیڈ‘‘ رہنما سمجھتے تھے جو پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن پر عمل کرتے ہیں، لیکن تمام تر باتوں کے باوجود شہباز شریف اب دنیا کے اسٹیج پر ملک کے سب سے سرگرم اور موثر رہنمائوں میں سے ایک کے طور پر ابھرے ہیں۔ وائٹ ہائوس سے لیکر ریاض، بیجنگ، انقرہ، باکو اور تہران میں اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ملاقاتوں تک، وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی سفارتی حیثیت کو بلند کر کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو حیران کر دیا ہے اور انتہائی ہنگامہ خیز ادوار میں ملک کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جنہوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ جس شخص کو دنیا ایک ایڈمنسٹریٹر سمجھتی ہے وہ ایک بصیرت انگیز رہنما کے طور پر پاکستان کی عالمی حیثیت بدل دے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ ایک تاریخی دفاعی معاہدے سے لے کر بھارت کیخلاف پاکستان کی اسٹریٹجک طاقت کو بڑھانے اور واشنگٹن کے اوول آفس تک دوبارہ رسائی حاصل کرنے تک، شہباز شریف نے توقعات کو ایک نئی شکل دی ہے، اور کئی معاملات میں وہ اپنی ہی توقعات سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی ڈاکٹر توقیر شاہ کے مطابق، پاکستان کے پیچیدہ اور اکثر ہنگامہ خیز سیاسی منظرنامے میں بہت کم شخصیات نے وہ معیار، مستقل مزاجی اور صلاحیت دکھائی ہے جو وزیرِاعظم شہباز شریف نے پیش کی ہے۔ ایک تجربہ کار عوامی خادم، عملی منتظم، اتحاد قائم کرنے والے اور ترقی پسند رہنما کے طور پر، اور بین الاقوامی سفارت کاری اور ریاستی امور میں شاندار مہارت رکھنے والے وزیرِاعظم کے طور پر شہباز شریف ایک شاندار اسٹیٹس مین کی حیثیت سے نمایاں بن چکے ہیں، یہ ایک ایسا لقب ہے جو کسی ایسے ملک میں آسانی سے نہیں ملتا جہاں سیاسی کیریئر اکثر مختصر، منقسم یا حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر توقیر، جو خود سول بیوروکریسی کی ایک نمایاں شخصیت ہیں اور مرکز اور پنجاب دونوں میں کئی برسوں تک شہباز کے ساتھ قربت میں کام کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے حوالے سے اُن کی اپنی ایک رائے ہے۔ ایک سرکاری ذریعے نے اس نمائندے کو بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف سب کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں جو برسوں تک ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیشہ دبائو میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر توقیر نے بتایا کہ وزیرِاعظم اپنی بین الاقوامی ملاقاتوں کی تیاری نہایت محنت اور باریکی سے کرتے ہیں۔ کسی بھی اہم دارالحکومت سے آنے والا سائفر وہ اسی دن چند گھنٹوں میں پڑھ لیتے ہیں۔ اپنی عالمی مصروفیات کیلئے وہ تقاریر کی متعدد مرتبہ ریہرسل کرتے ہیں، دستاویزات اور بریفز کو بڑی تفصیل سے پڑھتے ہیں اور متعلقہ ماہرین سے ملاقات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ تمام وزراء اور حکام جو بین الاقوامی ہم منصبوں سے ملتے رہتے ہیں، وہ مکمل تیاری کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مینو اور تحائف کے انتخاب سے لے کر ثقافتی اور سماجی باریکیوں تک وزیراعظم شہباز شریف غیر ملکی رہنمائوں سے ملاقاتوں کے دوران باریک سے باریک پہلو پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف غیر ملکی رہنمائوں کے ساتھ طویل المدتی تعلقات اور دوستیاں قائم کر لیتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بیرونی دوروں کے دوران وزیرِاعظم کی مصروفیات صبح ساڑھے 7؍ بجے سے شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی دوروں کے دوران ان کے وفد کیلئے سیاحت اور شاپنگ ممنوع رہتی ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرحوم میاں شریف نے جنرل ضیاء کے دور میں نواز شریف کو سیاست میں لاتے وقت شہباز شریف کو خاندان کے کاروبار کی دیکھ بھال کیلئے منتخب کیا تھا کیونکہ والد کو چھوٹے بیٹے کی صلاحیتوں کا علم تھا۔ ان کا سیاسی سفر اپنے بڑے بھائی، سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے سائے میں شروع ہوا لیکن وقت کے ساتھ انہوں نے ایک علیحدہ پہچان بنائی۔ انہوں نے خود کو ایک ٹیکنوکریٹک، انتہائی محنتی، نظم و ضبط رکھنے والے اور عملی حل تلاش کرنے والے رہنما کے طور پر منوایا جس کی توجہ محض سیاست پر نہیں بلکہ حکمرانی پر بھی مرکوز رہی۔ کئی لوگ شہباز شریف کو جدید پنجاب کا معمار سمجھتے ہیں۔ ان کے بطور وزیراعلیٰ ان کا دورِ حکومت انفراسٹرکچر کی ترقی، تعلیمی اصلاحات، اچھی حکمرانی، صحت کی سہولتوں میں توسیع اور امن و امان پر توجہ دینے کیلئے مشہور رہا ہے۔ دیہی رابطے بہتر بنانے والی سڑکوں کی تعمیر سے لیکر سیف سٹی سسٹم، پنجاب فوڈ اتھارٹی، فرانزک سائنس ایجنسی، ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورس، لاہور میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبے ایسے پروجیکٹس ہیں جو سب نون لیگ کی حکومتوں کی کامیابیاں ہیں اور یہ ’’شہباز اسپیڈ‘‘ سے جڑی ہیں۔ لیکن ڈاکٹر توقیر کے نزدیک شہباز شریف کی اصل طاقت صرف رفتار نہیں بلکہ ویژن اور مستعدی ہے۔ جہاں دوسرے سیاستدان وعدے کرتے، وہاں شہباز شریف خود میدان میں اتر کر نتائج دیتے۔ ان کا حکمرانی کا انداز اسپتالوں، اسکولوں اور عوامی دفاتر کے متعدد غیر اعلانیہ دوروں پر مبنی تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سروس ڈلیوری محض نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہو۔ ڈینگی کی وبا کیخلاف جنگ ہو، پولیو کے خاتمے کی کوشش، سیلاب جیسی قدرتی آفات یا فرقہ واریت اور دہشت گردی کیخلاف کارروائیاں، یہ ایسے اقدامات ہیں جن کی قیادت خود شہباز شریف نے کی۔ بہت کم وزرائےاعظم ایسے دیکھنے کو ملے ہیں جو شہباز شریف کی طرح براہِ راست اقدامات کرتے ہوں۔ انہوں نے 2022ء میں ذاتی حیثیت میں مداخلت کر کے آئی ایم ایف کے ساتھ تقریباً ناممکن معاہدہ طے کیا اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ اسی طرح مئی 2025ء میں بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران آرمی چیف کے ساتھ قریبی رابطے، ہم آہنگی اور سفارتی مہارت نے امریکا، چین، سعودی عرب جیسی بڑی طاقتوں اور علاقائی ممالک جیسا کہ ترکی، قطر اور آذربائیجان کو پاکستان کے موقف کی حمایت پر آمادہ کیا۔ ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے دوران بھی وزیرِاعظم اور آرمی چیف نے مل کر کام کیا اور مغربی ہمسائے کے ساتھ کھڑے ہوئے بغیر امریکا کو بھی ناراض نہ کیا۔ بلکہ امریکا نے پاکستان کو علاقائی اثر و رسوخ استعمال کر کے قیام امن کی ترغیب دی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران، وزیرِاعظم شہباز کو چین، روس، ای سی او، سعودی عرب، جی سی سی، امریکا اور کئی دیگر ممالک کے رہنمائوں سے ملاقاتیں اور معاہدے کرتے دیکھا گیا۔ وزیرِاعظم کے قریبی ساتھی کے مطابق، عالمی سطح پر شہباز شریف نے جو صلاحیتیں دکھائی ہیں، وہ بہت کم لوگوں کو پہلے معلوم تھیں۔ ڈاکٹر توقیر کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز ایک کثیر اللسانی شخصیت ہیں، جو بین الاقوامی تعلقات میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ شہباز شریف روانی سے عربی زبان میں گفتگو کر لیتے ہیں اور سعودی عرب کے قومی دن پر عربی میں پیغام بھی دے چکے ہیں۔ وہ جرمن بھی بول لیتے ہیں اور برلن میں ایک بڑے اجتماع سے جرمن میں خطاب بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز معمولی روسی بھی بول سکتے ہیں اور روسی زبان میں ہم منصبوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت میں ان کی اردو اور انگریزی پر گرفت غیر معمولی ہے جبکہ وہ علاقائی زبانوں جیسے سرائیکی اور پوٹوہاری میں بھی خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز کی بین الاقوامی مصروفیات نے ملک کی ساکھ کو بہتر کیا ہے۔ انہوں نے چین، سعودی عرب، ترکی اور امریکا جیسے اسٹریٹجک اتحادیوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہیں اور پرامن بقائے باہمی، علاقائی تعاون اور ماحولیاتی انصاف پر زور دیا ہے۔ ڈاکٹر توقیر کی رائے ہے کہ قیادت کا اصل امتحان آرام دہ حالات میں نہیں بلکہ بحرانوں میں ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے اقتصادی بحرانوں، قدرتی آفات، سیاسی بدنامی کی مہمات اور حکمرانی کی رکاوٹوں کا سامنا کیا، اور پھر بھی وہ شاذ و نادر ہی الزام تراشی یا اشتعال انگیز بیانات جاری کرتے ہیں۔ ان کا رویہ پُرسکون، زبان نپی تلی اور پالیسیوں کا ہدف عملی رہا ہے، نہ کہ مقبولیت پسندی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں دوسروں نے محاذ آرائی کو ترجیح دی، وہیں شہباز شریف نے اتحاد سازی کا انتخاب کیا۔ جہاں دوسروں نے نفاق کا بیج بویا، وہاں وزیراعظم شہباز شریف نے یکجہتی پر زور دیا۔ ان کا کیریئر ٹیکنوکریسی اور سیاسی فہم، علاقائی سمجھ بوجھ اور عالمی ویژن، فوری اقدامات اور طویل المدتی منصوبہ بندی کا نادر امتزاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو شاندار اسٹیٹس مین کہنا محض خوشامد نہیں بلکہ یہ ایک ایسی زندگی کا اعتراف ہے جو اکثر ذاتی اور سیاسی قیمت پر عوام کی خدمت میں گزاری گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسے رہنما کا اعتراف ہے جس نے سیاسی طوفانوں اور نظام کی رکاوٹوں کے باوجود اپنی توجہ ڈلیوری، مکالمے اور ترقی پر مرکوز رکھی۔ پاکستان کے جمہوری استحکام اور سماجی و معاشی ترقی کے سفر میں شہباز شریف محض ایک سیاسی شخصیت نہیں بلکہ تجربے کا ستون، ذمہ دار حکمرانی کی علامت اور دور حاضر کے تقاضوں کے رہنما ہیں۔
انصار عباسی
توقعات سے بڑھ کر، شہباز شریف نے عالمی منظر نامے پر پاکستان کا وقار بلند کیا

