قومی اسمبلی میں صحافی سے مبینہ بدسلوکی پر مذمتی قرارداد منظور، ایوان میں گرما گرم بحث 

Calender Icon پیر 29 ستمبر 2025

قومی اسمبلی نے سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل میں سینئر صحافی اعجاز احمد سے مبینہ بدسلوکی کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کر لی۔ واقعے کے خلاف پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے احتجاجاً پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا جس پر ایوان کا ماحول کشیدہ ہو گیا۔

واقعے کی تفصیلات کے مطابق اعجاز احمد نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے سوالات کیے، جس کے جواب میں مبینہ طور پر عمران خان نے ان کے ساتھ بدکلامی اور گالم گلوچ کی۔ اس پر صحافی برادری نے شدید ردِ عمل دیتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اسپیکر ایاز صادق کی ہدایت پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ صحافیوں کو منانے پریس لاؤنج گئے اور انہیں منا کر واپس لائے۔

بعد ازاں ایوان میں عمران خان کے مبینہ ناروا رویے کی مذمت میں ایک قرارداد پیش کی گئی جو اکثریتی رائے سے منظور کر لی گئی۔ قرارداد میں واضح کیا گیا کہ صحافیوں سے گالم گلوچ یا بدتمیزی ناقابل قبول ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سادگی، ایمانداری اور شائستگی عوامی نمائندوں کا زیور ہیں۔ سابق وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا کہ وہ نازیبا زبان استعمال کریں۔ اگر سیاستدان خود بدزبانی شروع کر دے تو نظام پر سوال اٹھتا ہے۔ “آپ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، آپ کو زیادہ احتیاط برتنی چاہیے،” انہوں نے کہا۔

پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے بھی واقعے پر شدید ردِ عمل دیا اور کہا کہ ایک صحافی کی تصویر دکھا کر کارکنوں کو اشتعال دلانا قابلِ افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ نفرت اور انتشار کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا تاکہ اصل مسائل پر توجہ دی جا سکے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حقائق سامنے لائے بغیر رائے قائم کرنا اور قرارداد منظور کرنا ایوان کے وقار کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا، “ہمیں نہیں معلوم جیل میں اصل میں کیا ہوا، پہلے تحقیق کی جائے۔”

یہ واقعہ نہ صرف ایوان میں صحافت اور سیاست کے درمیان تناؤ کو نمایاں کرتا ہے بلکہ سیاسی قیادت کے رویے پر بھی کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ صحافی برادری کی آزادی اور احترام کو یقینی بنانا جمہوری عمل کی بنیاد ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔