غزہ (نیوز ڈیسک) اسرائیل کے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے دعوؤں کے باوجود غزہ پر حملے جاری رہے جس سے مزید 38 فلسطینی شہید ہو گئے۔
اسرائیلی بمباری میں مزید 38 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے، خوراک کے حصول میں متعدد فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے، اسرائیل نے غزہ سٹی کا مرکزی راستہ بھی بند کر دیا، فلسطینی جنوب کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔
یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس کی قیادت میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے “طوفان الاقصیٰ” کے نام سے اسرائیلی سرحدوں پر بڑا حملہ کیا۔
فلسطینی مجاہدین نے رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے سرحدی بستیوں میں داخل ہو کر 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا جس کے بعد اسرائیل نے بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں شروع کر دیں۔
صیہونی حکومت نے نہ صرف 3 لاکھ 60 ہزار ریزرو فوجی غزہ میں تعینات کیے بلکہ پوری غزہ پٹی کو ایک تباہ کن محاصرے کا شکار بنا دیا۔
ان دو برسوں میں ہونے والی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ 1 لاکھ 70 ہزار کے قریب زخمی ہیں۔
اسرائیلی محاصرے نے غزہ میں 20 لاکھ شہریوں کو قحط اور فاقہ کشی کا شکار کر دیا ہے، ہسپتال، مساجد، کلیسا، سکول، تعلیمی ادارے، سڑکیں اور سویلین انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور پورا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امید ہے معاہدہ جلد ہوگا، تمام ممالک نے غزہ امن منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، حماس نے مذاکرات میں بہت اہم باتوں پر اتفاق کر لیا، ہم مشرق وسطیٰ میں3 ہزار سال پرانا تنازع حل کرنے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ نیتن یاہو کو یرغمالیوں کی ڈیل کے بارے میں منفی رویہ اختیارکرنے سے باز رہنا چاہئے، حماس بہت اہم چیزوں سے اتفاق کررہی ہے،
ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ، یواے ای اور سعودی عرب بھی امن کیلئے کوشاں ہیں، حماس ترکیہ کے صدراردگان کا احترام کرتی ہے، صدر اردگان غزہ میں امن کیلئے اثرو رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔